World

سعادت حسن منٹو

سعادت حسن منٹو اردو ادب کے وہ بے باک افسانہ نگار ہیں جن کا نام اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ 11 مئی 1912 کو لدھیانہ، پنجاب (بھارت) پیدا ہونے والے منٹو نے اردو ادب کو ایسے افسانے دیے جو نہ صرف اپنے دور کے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں، بلکہ آج بھی معاشرتی حقائق کو بیان کرتے ہوئے ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

اردو ادب پر مزید آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

منٹو کی زندگی مالی مشکلات اور محدود تعلیمی مواقعوں میں گزری۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم امرتسر سے حاصل کی، لیکن دو بار میٹرک میں فیل ہو گئے۔ کالج میں گئے تو پہلے سال ہی خراب رزلٹس پر چھوڑ دیا۔ ان کی ذندگی میں بڑا موڑ تب آیا جب 1933 میں وہ عبدالباری الیگ سے ملے۔ انھوں نے منٹو کو اپنے چھپے ہوئے ہنر تلاش کرنے کو کہا۔

ایک نئے جذبہ کے ساتھ آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ لیکن 9 مہینے بعد تپ دق میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے آپ کشمیر میں سینیوریم شفٹ کردیے گئے۔ اور 3 مہینے وہاں گزارے۔

ادبی سفر کا آغاز

منٹو کا ادبی سفر 1934 میں ان کے پہلے افسانے “تماشہ” کے ساتھ شروع ہوا۔ جو جلیاں والا باغ کے سانحے پر مبنی تھا۔ اس کے بعد منٹو نے کئی مختصر افسانے لکھے جو ان کی منفرد طرزِ تحریر کی وجہ سے فوری طور پر مقبول ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف اردو میں بلکہ ہندی اور پنجابی میں بھی لکھا اور جلد ہی اپنی ایک الگ پہچان بنا لی۔

حقیقت پسندی

سعادت حسن منٹو کی تحریریں حقیقت پسندی کا بہترین نمونہ ہیں۔ وہ معاشرتی حقیقتوں کو بے نقاب کرنے سے کبھی نہیں گھبراتے تھے۔ ان کے افسانوں میں سماج کی تلخ حقیقتوں کو بڑی جرات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ان کے مشہور افسانے “ٹھنڈا گوشت”، “کالی شلوار”، “بو”، “دھواں”، اور “ٹوبہ ٹیک سنگھ” اس بات کا ثبوت ہیں کہ منٹو نے انسانی فطرت کی برائیوں اور معاشرتی منافقت کو کھل کر بیان کیا۔

تقسیمِ ہند اور منٹو کی تحریریں

1947 میں برصغیر کی تقسیم منٹو کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوئی۔ انہوں نے تقسیم کے موضوع پر ایسے افسانے لکھے جو آج بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ ان کے افسانے “سیاہ حاشیے”، “کھول دو”، اور “ٹوبہ ٹیک سنگھ” تقسیم کے دوران انسانیت پر ہونے والے ظلم و ستم کی کہانیاں ہیں۔ ان افسانوں میں منٹو نے اس دور کی انسانی زندگی کی پیچیدگیوں اور درد کو اس طرح پیش کیا کہ قاری کی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔

تنازعات اور مقدمات

منٹو کی بے باک تحریریں اکثر تنازعات کا شکار رہیں۔ ان پر فحاشی اور بے راہ روی کے الزامات لگائے گئے۔ اور کئی بار ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ مگر منٹو نے کبھی اپنی قلم کی جرات کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ وہ ہمیشہ اپنی تحریروں میں سچائی اور حقیقت کو ترجیح دیتے رہے، چاہے انہیں اس کے لیے کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

وفات

آپ کی تحریروں پر بنائے جانے والیے کیسس کی وجہ سے آپ ڈپریشن کا شکار ہوگئے۔ آپ نے شراب پینا شروع کردی جس کی وجہ آپ جگر کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ سعادت حسن منٹو کی زندگی کا اختتام 18 جنوری 1955 کو لاہور میں ہوا۔ ان کی موت کی وجہ جگر فیل ہو جانے کی وجہ سے ہوئی۔ موت کے بعد بھی ان کی تحریریں زندہ ہیں اور اردو ادب میں ان کی اہمیت کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے۔

Bilal Habib

Bilal Habib Founder RatingWord.com. As a writer, I started writing articles on various websites in 2002. I have been associated with journalism since 2007. I have worked for top rated English, Urdu newspapers, and TV channels of the country. I engaged in investigative journalism. I also worked in digital journalism and multimedia journalism. I won 2 journalism awards. Now, I am working on knowledge, information, research, and awareness through this website. I have two master's degrees.

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button