World

امید ناول – ابن غنی

امید ناول اردو ادب کا سرمایہ ہے۔ یہ ناول ابن غنی کی تحریر ہے۔ ان کا ہت شکریہ کے ریٹنگ ورڈ کو یہ ناول پبلش کرنے کی اجازت دی۔ اردو ادب پر مزید آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

پیش لفظ

دن بھر ہونے والی دھیمی بارش رات ڈھلنے پہ شدید طوفان کا رخ اختیار کر رہی تھی۔ طوفانی بارش کی بوچھاڑ سے پیدا ہونے والی آوازوں کا شور ماحول کو مزید خوفناک بنا رہا تھا۔

خون بہاتے زخموں کے ساتھ وہ بھاگتا چلا آ رہا تھا۔ اس حالت میں بھی اپنے قریب آنے والوں کی درگت اچھے سے بنا رہا تھا۔ گلی کا موڑ مڑتے ہی اس کا سامنا چھ لوگوں سے ہوا۔

وہ بجلی کی تیزی سے حرکت میں آیا اور لٹھ کی صورت گھومتی کلاشن نے مخلاف پارٹی کی کھوپڑیوں کو ناریل کی طرح پچکا کے رکھ دیا۔

ایک مسکراہٹ اس کے خون آلودہ چہرے پہ ابھری۔ ایک شخص جو نیچے پڑا سسک رہا تھا۔ یک بیک گھٹنے کے قریب بندھی پستول نکال کر غرایا۔

ڈرائیو، ہمارے حوالے کرو۔

اس کے سنبھالا لینے سے قبل ایک ٹھوکر پستول کو اس کے ہاتھوں سے نکال گئی۔ جب کہ دوسری ٹھوکر نے اس کے ماتھے کو پھاڑ دیا تھا۔

کم از کم میری زندگی میں نہیں ۔کہتے ہوئے شکاری نے ہاتھوں میں پکڑی کلاشن پھینکی اور ہلکا سا لنگ مارتے ہوئے مخلاف سمت دوڑا۔

اوٹ سے نکلنے پر سامنے چند قدم فاصلے پہ ہاتھوں میں جدید اسلحہ لیے چند لوگ نظر آئے۔ وہ اکیلا شخص اگر ہتھیار بند ہوتا تو چند قدم فاصلے پہ کھڑے وہ لوگ آگ اور دھول چاٹ رہے ہوتے لیکن وہ نہتا تھا، قریب نہیں تھا۔ سو بس ایک مسکان اس کے چہرے پہ ابھر کر احاطہ کرنے لگی تھی۔

موت کا تصور بعض لوگوں کے لیے خوش کن ہوا کرتا ہے۔ بارش اسی شدت سے برس رہی تھی۔

ٹھاہ۔۔۔۔ ٹھاہ۔۔۔۔ ٹھاہ۔۔۔۔۔۔۔۔ جدید گن سے پاور فائر ہوئے تھے۔ وہ ایک جھٹکے سے چند انچ پیچھے کی جانب گرا۔ مسکان چہرے سے جدا ہونے سے قبل ہی وہ دنیا کو وداع کہہ چکا تھا۔

فائر کرنے والی پارٹی دھیمے اور محتاط قدموں قریب آئی اور احتیاطاً پستول سے چند فائر مزید اس کے جسم میں اتار دیے۔ ٹھنڈے جسم نے کوئی حرکت نہیں کی تو تسلی ہوئی۔

چیک ، ایک غراتی آواز ابھری۔ اب ایک شخص مرنے والے کی تلاشی لے رہا تھا۔

یہ لیجیے، تلاشی لینے والے نے اس کی کسی جیب سے ایک ڈرائیو نکال کر اپنے باس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔

لیٹس موو(let’s move)، کہتے ہوئے وہ آگے بڑھا۔ سبھی محتاط کھڑے لوگ کسی فوجی پارٹی کی طرح یکے بعد دیگرے وہاں سے نکلتے چلے گئے۔

بارش کی بوچھاڑ میں کچھ کمی ہوئی تھی لیکن یک بیک پھر سے تیز ہو گئی۔

مرنے والے کے جسم سے خون نکل نکل کر سڑک کو بھگوتا جا رہا تھا۔ کلائی میں بندھی گھڑی بار بار بیپ دے رہی تھی لیکن اس کال کو سننے والا یہ دنیا چھوڑ چکا تھا۔

اچھائی کے لیے لڑنے والے بہادروں کی یہ مشترک بات ہے کہ وہ اپنے انت الحیات میں تنہا اور گھائل ہوتے ہیں۔

۔

۔

تیزی سے چلتی ایک گاڑی کے بریک لگنے کی آوازوں سے ماحول کی خوفناکی میں اضافہ کیا تھا۔

چست لباس پہنے ایک لڑکی ڈرائیونگ سیٹ سے نکل کر گلی میں یہاں وہاں دیکھتے ہوئے اپنی کلائی پہ بندھی گھڑی سے کچھ چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی۔ اب شاید اسے سگنل مل گیا تھا۔ وہ اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ بارش اسی شدت سے برس رہی تھی۔

گاڑی سے ایک مرد بھی نکلا تھا۔ جو لڑکی کے قدموں کا پیچھا کر رہا تھا۔ اب وہ مرنے والے کے قریب پہنچ آئے تھے۔

سامنے نظر آتے منظر کو دیکھ کر لڑکی ٹھٹک گئی تھی لیکن ان کا کام ایسا ہی تھا۔ بہت جلد جسمانی طور پہ خود کو سنبھال کر وہ آگے بڑھی تھی مگر اس کی آنکھوں میں اب کرب ہی کرب تھا۔ درد ہی درد،

مرنے والے کے قریب بیٹھ کر وہ اس کے مسکراتے چہرے پہ ہاتھ پھیر رہی تھی۔

پیچھے کھڑا مرد ٹرانسمیٹر پہ کسی سے رابطہ کر رہا تھا۔

سر، کنگ از نو مور۔ کہہ کر وہ دوسری جانب کی بات سننے لگا۔

یس، میں اور مایا ہیں۔ جی سر، ٹھیک، جیسا آپ کہیں۔ نہیں سر ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ فائن سر۔

کال ختم کر کے وہ آگے ہوا تو زمین پہ بیٹھی مایا استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

جنرل راحیل نے کہا ہے۔ ان کی آخری رسومات خاموشی سے ادا کر دیں۔ فی الحال کسی کو پتا نہیں لگنا چاہیے۔

ہیڈ کوارٹر لے کر جانا ہے یا سیدھا قبرستان…؟ مایا نے سوال پوچھا۔

قبرستان ۔ مرد دھیمے سے بولا۔

۔

۔

فجر کی آذانیں ماحول کو خوبصورت بنا رہی تھیں۔

عثمان اٹھ جاؤ، نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ والد صاحب کی آواز پہ عثمان نے چادر چہرے سے ہٹائی اور اٹھ بیٹھا۔

ایک مزید دن،

وہی روٹین، ایک ہی طرح کے شب و روز، کوئی ایڈوینچر اور نیا پن نہیں، بس ایک ہی طرح کے مخصوص انداز میں شب و روز تیزی سے گزرتے جارہے تھے۔

عثمان ایک مارشل آرٹس انسٹرکٹر تھا۔ دوست کے ساتھ مل کر ایک کلب چلاتا تھا۔ یہی اس کی زندگی کا مدار تھا اور فی الحال یہی اس کی آمدنی کا ذریعہ بھی تھا۔

آج کے دن کچھ نیا ہونے والا تھا۔ شام کے وقت کلب کی ٹیم کو لاہور چیمپئن شپ کے لیے روانہ ہونا تھی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ٹیم انسٹرکٹر کی حیثیت سے عثمان ان کے ساتھ لاہور جانے والا تھا۔

۔

۔

ہائی روف گاڑی کلب کے باہر تیار کھڑی تھی۔

لوگ اپنے بچوں کو الوداع کہنے آئے تھے۔ عثمان بھی اپنے بھائی سے مل کر اسے واپس جانے کی ہدایت کر رہا تھا۔ یہ لوگ تین دن کے لیے لاہور جانے والے تھے۔ دن ڈھل رہا تھا۔ ابھی روانہ ہو کر امید تھی کہ صبح صادق کے وقت وہ اپنی منزل کو پہنچیں گے۔

۔

۔

سفر خوبصورت تھا۔ دوستانہ ماحول میں گپیں ہانکتے وہ جانب منزل رواں دواں تھے۔

۔

۔

صبح چار بجے کے قریب وہ لاہور پہنچ آئے تھے۔ یہ وہی خونی صبح تھی۔ رات کی بارش کے نتیجہ میں سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئیں تھی۔ بادل ابھی باقی تھے۔ ہوا میں خنکی تھی۔

۔

۔

رہائشی ہوٹیل کے باہر عثمان ہائی روف سے نکل کر انگڑائی لے رہا تھا۔

دوسری جانب

خاموشی سے کنگ کی تدفین کے بعد مایا اس کی قبر پہ ایک گلاب رکھ رہی تھی۔

۔

۔

دن کا آغاز

۔

رات بھر کے تھکے ماندے سٹوڈنٹ سو رہے تھے۔ ساتھی انسٹرکٹر بھی گہری نیند میں تھا جب عثمان کی آنکھ کھلی۔ اسے بھوک محسوس ہو رہی تھی۔

ان کا کھانا ہوٹیل کی انتظامیہ کے ذمہ تھا۔ عثمان نیچے اترا تو ابھی کھانے کی تیاری جاری تھی۔

وہ دھیمے قدموں چلتا ہوا باہر نکل آیا۔ موسم کافی خوشگوار ہو گیا تھا۔ ہلکے بادل اور ٹھنڈی ہوائیں اسے لاہور میں خوش آمدید کہتی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ دھیمے سے مسکاتا اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے خراماں خراماں چلتا جا رہا تھا۔

۔

۔

واپسی پہ ناشتا تیار تھا۔ سٹوڈنٹس بھی تقریباً اٹھ چکے تھے۔ اطمینان سے ناشتا کرنے کے بعد اب انہیں لاہور میں اپنے میزبان کلب پریکٹس کے لیے جانا تھا۔

قطار میں سٹوڈنٹس کو ہائی روف میں داخل کرواتے وقت پارٹنر نے عثمان کو آواز دی۔

ایک ماسک کا ڈبہ تو پکڑ لو یہیں کہیں سے، ہو سکتا ہے ضرورت پڑے۔

عثمان سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھا اور پیدل چلتے ہوئے قریبی مارکیٹ کا رخ کیا۔

بھائی صاحب یہ ماسک کا ڈبہ کتنے کا ہے…؟ اب وہ ایک دکان پہ کھڑا دکاندار سے پوچھ رہا تھا۔

دکاندار کے جواب کی اسے سمجھ نہیں آئی تھی کیونکہ عقب میں ایک جیپ کے ٹائر بڑی شدت سے چرچرائے تھے۔ اس سے قبل کہ عثمان کچھ سمجھتا یا سنبھلتا۔ کمانڈو وردیوں میں ملبوس تین اشخاص نے اسے دھکیلتے ہوئے گاڑی میں داخل کیا اور جیپ تیزی سے آگے بڑھ گئی۔

دھت، ۔ہپپپ، ابے کون ہو بھائی صاحب۔ بوکھلاہٹ میں عثمان بس اتنا ہی کہہ سکا۔

شٹ اپ۔ ایک نسوانی آواز نے انگریزی میں ڈانٹا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک سیاہ تھیلی عثمان کے سر پہ چڑھا دی گئی۔

اس نے خاموشی سے خود کو مقدر پہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا لیکن زبان کی کھجلی کا کیا کرتا۔ جو عادی مجرم تھی۔

بہن جی، پہلی مرتبہ اکیلے لاہور آنے والوں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے کیا…؟ ممی قسم اگلی مرتبہ پاپا کے ساتھ آؤں گا۔

جواباً کوئی جواب نہ پا کر عثمان خاموش ہو گیا۔

۔

۔

کتنی دیر سفر جاری رہا کوئی پتا نہیں چلا کیونکہ سیاہ تھیلی میں اندھیرے کے سبب عثمان سو گیا تھا۔

ٹہوکہ دے کر اسے اٹھایا گیا اور تھیلی اس کے چہرے سے اتاری گئی۔

وہ الوؤں کی طرح پلکیں جھپکتا باہر نکلا۔ عقب سے کسی نے اس کے ہاتھوں کو قابو کر کے باندھ دیا۔

ابے یار، وہ بس اتنا کہہ کر چپ ہو گیا۔ بادلوں کی وجہ سے وقت کا اندازہ لگانا تھوڑا مشکل تھا۔ شاید دن ڈھلنے کو آیا تھا۔

۔

۔

یہ ایک چھوٹی سی عمارت تھی۔ آس پاس تقریباً خالی جگہیں تھیں۔ عثمان اندازہ کر رہا تھا کہ یہ جگہ لاہور سے باہری اطراف میں کہیں واقع ہو سکتی ہے۔

اسے دھکے دے کر چلاتے ہوئے اندر لانے کے بعد ایک کرسی پر باندھا گیا۔

ابے بھیا ۔ آرام سے۔ ویسے اپنا کون سا حساب نکلتا ہے جو یوں یہاں لے آئے..؟؟

شٹ۔۔۔۔ اپ ۔ مین۔ وہ شخص نیچے ہوتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ٹھنڈے لہجے میں بولا۔

سو یو آلاییو، وی تھنک یو آر نو مور

 (So You Alive King, We Think You Are No More)

(تو تم زندہ ہو مسٹر کنگ، ہمیں لگا تم کام آ گئے)

ایک غیر ملکی دھیمے باوقار قدموں چلتا اندر آ رہا تھا۔

دیکھنے میں تو انگریز لگتا ہے.. عثمان اپنے تئیں سوچ رہا تھا۔ ہو سکتا آسٹریلا سے ہو وہ بھی گورے ہوتے ہیں۔ یا شاید کینیڈا سے۔ اب مجھے کیا پتا زندگی میں کبھی گورے فلموں کے علاوہ کہیں دیکھے ہی نہیں۔

وہ اپنے دل میں خود سے باتیں کرنے میں مصروف تھا۔

ایک منٹ، کنگ ، ابے کون کنگ ۔ کہاں کا کنگ….؟ یہ بات عثمان نے باآواز بلند کہی تھی۔

ناؤ ٹیل میں، وئیر از ڈرائیو۔

(Now Tell Me, Where Is Drive)

(اب مجھے بتاؤ ، ڈرائیو کہاں ہے…؟)

انگریز اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔

یہ سوال یہیں تک تھا۔ باہر سے تیز فائرنگ کی آواز گونجنے لگی۔

دیکھو بھائی صاب یہ کیا ہو رہا ہے۔ ویسے جو بھی ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہو رہا۔ مجھے گولی نہیں کھانی ہے۔ سنا ہے اس کے بعد کھانا پینا بھول جاتا انسان۔

عثمان زمین پہ پڑا مسلسل بول رہا تھا۔ انگریز نے اس کے کرسی الٹا دی تھی اور خود پستول نکالے کرالنگ کے انداز میں دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا۔

ابھی وہ دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ دھاڑ سے دروازہ کھلا۔ آنے والا سوٹ میں ملبوس تھا۔ اس سے قبل کہ نیچے پڑا انگریز اس پہ فائر کرتا۔ آنے والے کے عقب سے ایک فائر ہوا۔ زمین سے اٹھتے ہوئے انگریز کی کھوپڑی کے عین درمیان میں فائر بیٹھا تھا۔

اب وہ خون ابل رہا تھا۔

لیٹس موو

(Let’s Move)

بندھے ہوئے عثمان کو جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے وہ لوگ اپنے درمیان میں حصار کی صورت لیے باہر نکلے۔ باہر انہی کے جیسے سوٹوں میں ملبوس لوگ ہتھیار بند کھڑے تھے۔ صبح یہاں لانے والی انگریز پارٹی کے لوگ زمین پہ مرے پڑے تھے۔

خون اگلتی لاشیں دیکھ کر عثمان کو ابکائی سی آنے لگی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کر کے خود کو ان افراد کے سہارے چھوڑ دیا جو دھکم پیل کرتے ہوئے سفید رنگ کی گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے۔

یہ دو گاڑیاں تھیں۔

۔

۔

پلیز بھائی صاحب آپ لوگ ہی بتا دیں کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ اندھیرا پھیلتا دیکھ کر اب عثمان کی پریشانی میں اضافہ ہونے لگا تھا۔

کچھ بولو گے بھی۔ اب کی مرتبہ عثمان چڑ کر بولا تھا لیکن وہ لوگ کسی روبوٹ کی طرح ساکت تھے۔

اب آبادی والا علاقہ شروع ہو رہا تھا۔ گاڑیاں آہستہ ہو گئی تھیں۔

یک بیک سیاہ رنگ کی ایک گاڑی نے انہیں کراس کیا۔ سوٹوں والے لوگ چوکنے ہوئے مگر سب ٹھیک رہا۔ وہ دوبارہ شانت ہو گئے۔

چند میل دور ایک موڑ مڑتے ہی فائرنگ کی آواز نے سناٹا توڑ دیا تھا۔

دو سیاہ گاڑیاں ان کا راستہ روکے کھڑی تھیں۔

ڈرائیور اور اس کے ساتھ براجمان شخص موقع پر دم توڑ گئے تھے۔

عثمان نے اپنے پیچھے آتی دوسری سفید گاڑی کو الٹتے دیکھا اور اگلی جانب رخ کرنے پہ پتا چلا کہ گاڑی بغیر ڈرائیور کے سیدھا دوڑ رہی ہے تو ایک زور دار چیخ بلند کی۔

بھائی صاب کچھ کرو۔ وہ چلاتے ہوئے اپنے دونوں اطراف براجمان اشخاص سے مخاطب ہوا تھا۔

جس سیاہ گاڑی نے کراس کیا تھا اس کے قریب سے گزرتے ہوئے ہلکی آواز میں فائر ہوئے۔

گاڑی جیسے یک بیک ٹائروں کی جگہ سڑک پہ گھسٹنے لگی تھی۔

سڑک سے نیچے اتر کر اب گاڑی درخت کی جانب رخ کر چکی تھی۔

عثمان تیزی سے کلمہ دہرائے جا رہا تھا۔ گاڑی عین درخت کے قریب پہنچ کر رک گئی۔ اس نے شدت سے بھینچی گئی آنکھیں کھولیں اور آس پاس دیکھا۔

پستول کے فائروں کی آواز آئی اور باہر نکلنے کو کلاشنیں سیدھی کرتے اطراف میں بیٹھے اشخاص لاشوں میں تبدیل ہو گئے۔ ایک کے ماتھے سے نکلنے والے خون نے عثمان کو بھی رنگین کر دیا تھا۔

کیا تم ٹھیک ہو۔ لڑکے،

یہ آواز ایک لڑکی کی تھی۔ جو عثمان سے مخاطب تھی۔ وہ جیسے گہرے صدمے کے عالم میں اپنے ساتھ پڑے لوگوں کی جانب تکے جا رہا تھا۔

دروازہ کھلا اور ایک جانب والی لاش کو کسی مرد نے باہر کھینچ لیا۔

ایک لڑکی کا ہاتھ اندر آیا اور وہ دھیمے لہجے میں بولی۔

آجاؤ۔ ہمارے ساتھ ، ڈرو مت ہم دوست ہیں، دشمن نہیں۔ عثمان خواب کے عالم میں باہر نکلا۔

آج کے دن کا آغاز ہی منحوس تھا۔ یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ عثمان اپنے ذہن میں مسلسل ان جملوں کی گردان کر رہا تھا۔

مایا ، ان کا کیا کرنا ہے۔….؟ مرد لڑکی سے مخاطب ہو کر سوال کر رہا تھا۔

چھوڑ دو۔ ٹیم بی خود ہی کر لے گی۔ تم میرے ساتھ آؤ۔

سر ہلاتے ہوئے مرد نے لبیک کہا تھا۔

۔

۔

دوران سفر خاموشی رہی۔ اب ایک بہت بڑی وئیر ہاؤس نما جگہ پہ پہنچ گئے تھے۔

اترو ، مرد نے دروازہ کھول سخت لہجے میں کہا۔

آرام سے صفدر، وہ پہلے ہی ڈرا ہوا ہے۔ یہ مہربان آواز مایا کی تھی۔

وہ پیچھے ہٹ گیا یوں جیسے زبان حال کہہ رہا ہو۔ آپ ہی سنبھالیے ہم سے تو چونچلے نہیں ہوتے۔

آ جاؤ، دوست۔ مایا مسکراتے ہوئے عثمان سے کہہ رہی تھی۔

میں کہاں ہوں۔ ….؟

ڈرو مت، تم اپنوں کے درمیان ہو۔

عثمان کے سوال پہ مایا نے جواباً کہا اور آگے بڑھتے ہوئے دوبارہ بولی۔

میرے ساتھ آؤ۔

۔

۔

راہداریوں سے گزرتے اب وہ ایک بڑے ہال میں آ گئے تھے۔ عثمان حیرانی کے عالم میں ڈوبا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اسے یہ کسی فکشن کا حصہ محسوس ہو رہا تھا۔

مشینری سے بھرے اس ہال میں کئی بڑے سکرین نصب تھے۔ جن پہ آپریٹرز بیٹھے کام میں مصروف تھے۔

یہ لو، مایا ایک جوس کی بوتل اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی۔ وہ جو آس پاس کا نظارہ لینے میں مصروف تھا۔ چونکا۔

شکریہ۔ عثمان نے مسکراتے ہوئے وہ پکڑ لی۔

یہاں دیکھو۔ کچھ دیر بعد مایا نے اسے سکرین کی جانب بلایا۔

سکرین پہ نظر پڑتے ہی عثمان کا دل دھڑکنا بھول گیا۔

نیلی جین پہ سیاہ جیکٹ پہنے ہاتھ میں پستول پکڑے یہ تصویر کسی سی سی ٹی وی فوٹیج سے نکالی گئی تھی۔

اپنا چہرہ پستول تھامے دیکھ کر عثمان نے تھوک نگلا۔

دیکھیے یہ کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ شاید آپ لوگ سرکاری ایجینسی سے ہیں لیکن پستول تو دور کی بات میں نے کبھی جین پہ جیکٹ تک نہیں پہنی۔ شلوار قمیض یا ٹراؤزر شرٹ، میرا یقین کریں یہی میرا پہناوا ہے۔ سارا شہر اس بات کی گواہی دے گا۔ پستول چلانا تو دور کی بات ہے مادام، میں نے کبھی پکڑ کے بھی نہیں دیکھا۔

مایا جو مسلسل مسکراتے ہوئے اس کی بات سن رہی تھی۔ یک بیک سمٹی اور سیلوٹ داغا۔

یہ تم نہیں ہو لڑکے۔ کنگ ہے۔

عقب سے آواز بلند ہوئی۔ عثمان چونک کر پلٹا۔ 

مائی سیلف جنرل راحیل۔ ایک قد آور شخصیت کمرے میں داخل ہو کر اس کی جانب بڑھ رہی تھی۔

ہیبت بھری رعب دار شخصیت کو دیکھ کر عثمان مرعوب ہوا تھا۔

سر۔ مایا نے ہلکا سا خم لیتے ہوئے آداب دیا اور مؤدب انداز میں چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔

جی، عثمان کی آواز حلق میں پھنس گئی تھی۔ ہنکارا بھرتے ہوئے وہ بولا۔

کنگ مطلب، سمجھا نہیں۔….؟

دیکھو یہ باتیں، ہر کسی سے کرتے نہیں لیکن اب تمہاری خوش قسمتی یا بدقسمتی کہ تم اس معاملے میں قدرتی آن پھنسے ہو۔ بتانا تو پڑے گا۔

جنرل راحیل مسکرائے۔

خو،، خوش قسمتی مطلب ….؟

ہم امید” ہیں۔ سرکاری ایجینسی تو نہیں لیکن سرکار کے لیے ہی کام کرتے ہیں۔ کنگ ہمارا بیسٹ ایجینٹ تھا۔ صحیح سمجھے، تھا”۔ ہی از نو مور۔

تم اس کے ہم شکل ہو۔ رتی بھر فرق کے بغیر۔ بالکل ملتے جلتے ہمشکل۔

عثمان نے ایک نظر سکرین پہ دوڑائی اور واپس جنرل راحیل کی جانب متوجہ ہوا جو کہہ رپے تھے۔

خوش قسمتی اور بد قسمتی کا فیصلہ اب تمہیں خود کرنا پڑے گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی تم اب اس کھیل کا حصہ ہو۔ ہمارے ساتھ رہ کر ہمارے طریقہ سے کھیلو گے تو خوش قسمت رہو گے۔ ورنہ جتنے لوگ اب تمہارے پیچھے ہیں۔ وہ تمہاری بد قسمتی کا فیصلہ خود ہی کر دیں گے۔

سا۔۔۔۔ساتھ مطلبب۔…..؟ سر۔۔

عثمان ہکلایا۔

مایا، جنرل راحیل نے مایا کی جانب اشارہ کیا۔

وہ آگے بڑھی اور ریمورٹ اٹھا کر سکرین میں تبدیلی کرنے کے بعد بولنا شروع ہوئی۔

یہ قصہ ایک ڈرائیو سے شروع ہوا تھا۔ کنگ از آور بیسٹ ایجنٹ، لیکن ایک غلطی کے سبب وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور ڈرائیو بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ ڈرائیو کے پیچھے تین پارٹیاں تھیں۔ امریکی، اٹلی، اور فرانسیسی۔

پہلے بہت کنفیوژن تھا کہ ڈرائیو کس پارٹی نے چھینی ہے لیکن آج وہ بھی دور ہو گئی۔

آج صبح ہم نے تمہیں مارک کیا تھا۔ جب تم اپنے ہوٹیل سے نکل کر چہل قدمی کر رہے تھے۔ ہم پہلے تو حیران ہوئے لیکن اگر کنگ کو اپنے ہاتھوں نہ دفنایا ہوتا تو ہم بھی تمہیں کنگ ہی سمجھتے۔

جنرل راحیل جو خاموش کھڑے تھے، نے ہاتھ اٹھا کر مایا کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔ وہ مایا کی کنگ کے لیے دلی کیفیات سے واقف تھے۔

تم پہ دو پارٹیوں نے حملہ کیا۔ ہمارا ایک ایجنٹ تمہارے پیچھے تھا۔ پہلی پارٹی امریکی تھی۔ ہم ان کے ٹھکانے پہ ریڈ کرنے کی تیاری میں تھے لیکن وہاں اٹلی والی پارٹی آ گئی۔ ہمارے ایجنٹ نے خاموشی سے پیچھا کیا اور لوکیشن ہمیں بھیجی، ہم نے راستہ میں تمہیں ان سے آزاد کروایا اور اب.، جنرل بات کرتے کرتے رکے، گہری سانس لی اور دوبارہ گویا ہوئے۔

اب صرف ایک پارٹی باقی ہے جو ڈرائیو ہتھیانے کے بعد یہاں سے نکل چکی ہے۔ یعنی فرانسیسی۔

اور وہی کنگ کی قاتل ہے۔

یہ جملہ مایا نے ادا کیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی۔ تپش تھی۔ غصہ تھا۔ چنگاریاں تھیں۔ جنرل راحیل نے عثمان کی جانب دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

مگر سر میرا کیا…؟ میں اپنی ٹیم، عثمان کی بات درمیان میں رہ گئی۔ جنرل راحیل دوبارہ گویا ہوئے۔

تم ٹیم کے ساتھ آئے ہو۔ تین دن کے لیے، میں سمجھتا ہوں۔ تمہاری صورتحال لیکن ہمیں تمہاری مدد چاہیے۔ صرف تمہارے چند دن۔ فرانسیسی ٹیم کو بل سے نکالنے کے لیے تمہارے چہرے کی ضرورت پڑے گی۔ تمہیں یہ پاکستان کے لیے کرنا ہو گا۔

مگر سر،

تم سوچنے کا وقت لو، اگر تمہارا جواب نفی میں ہے تو مایا تمہیں تمہارے ساتھیوں تک پہنچا دے گی۔ مگر اتنا یاد رکھنا۔ ہم سے دور ہوئے تو بد قسمتی تمہارے گھر تک تمہارا احاطہ کرے گی۔ ہم تمہارے اپنے ہیں اس لیے کوئی زبردستی نہیں لیکن پرائے لوگ جب تمہیں کنگ سمجھیں گے تو وہ گولی چلائیں گے اور اندھیرے کے تیر عموماً ٹھیک نشانہ پہ لگتے ہیں۔

جنرل راحیل نے اٹھ کر عثمان کے کندھے پہ تھپکی دی اور باہر نکل گئے۔

مایا جی، عثمان مایا کی جانب دیکھتے ہوئے منہ ہی منہ میں بولا۔

تمہیں بھوک لگی ہو گی۔ آؤ میرے ساتھ۔

مایا کی بات پہ اسے یاد آیا کہ وہ صبح سے بھوکا ہے اور مسلسل دھکے کھا رہا ہے۔

وہ مایا کے پیچھے چلتا ہوا ایک اور کمرے میں آیا۔ یہاں کھانا چنا گیا تھا۔

سکون سے کھاؤ اور سوچو۔ اگر تمہارا جواب نفی میں ہوا تو تمہارے ساتھیوں تک پہنچا دیا جائے گا۔ لیکن یاد رکھنا اگر مدد کرو گے تو فائدہ میں رہو گے۔ ویسے بھی جب وطن بلائے تو بیٹوں کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔

مایا نرم لہجے میں کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔

۔

۔

عثمان کھانا کھاتے ہوئے مسلسل خود سے باتیں کر رہا تھا۔ پریشانی کے عالم میں وہ ہمیشہ یہی کرتا تھا۔ اس وقت ذہن میں بس دو ہی باتوں کی تکرار تھی۔

ہاں اور نہیں

زندگی کے کئی موڑ ہمیں انہیں دو راستوں والے دوراہے پہ لا کھڑا کرتے ہیں جب ہمیں ہاں اور نہیں کے درمیان کھڑے ہو کر ان میں سے کسی ایک چننا ہوتا ہے۔

اگر نہیں کروں گا تو زلیل کے ساتھ خوار بھی ہوں گا۔ آج بھی بے وجہ فٹ بال بنائی رکھا۔

اگر ہاں کر دوں تو پتا نہیں یہ میرے ساتھ کیا کریں گے۔ توبہ الله، تصویر والا شخص جسے کنگ کہہ رہے تھے، کتنا خوفناک لگ رہا تھا۔ ویسے میرا ہی ہمشکل تھا۔ یعنی کچھ خوفناکی ہم میں بھی پائی جاتی ہے۔ کیا یہ مجھے اس کے جیسا بنائیں گے…؟ 

عثمان نے کھاتے کھاتے ہاتھ روکا۔ چند لمحے خاموش ہوا پھر سے منہ چلانے لگا۔

فیصلہ تو مجھے ہاں میں ہی کرنا پڑے گا۔ آخر کو ایک سوہنی لڑکی کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

اس آواز کے ساتھ ہی عثمان کو اپنی دوسری آواز آئی۔

لیکن لڑکی کے ساتھ موجود مرد مجھے خاص پسند نہیں آئے دیکھنے میں ہی قصاب لگتے ہیں۔ ویسے لڑکی سوہنی بھی ہے اور فلموں کی طرح ایکشن سٹار بھی، کیا خوبصورتی سے فائرنگ کرتی ہے۔

اب وہ بلاوجہ خوش ہو رہا تھا۔ اتنا تو وہ جانتا ہی تھا کہ یہاں انکار کا آپشن نہیں ہے۔

۔

۔

ہاں تو کیا سوچا تم نے….؟ مایا گھڑی دیکھتے ہوئے عثمان سے مخاطب تھی۔

ٹھیک ہے میں تیار ہوں لیکن مجھے کرنا کیا ہے….؟

عثمان جو بستر پہ بیٹھا ہوا تھا، بولا۔

گڈ، بتاتے ہیں۔ جنرل راحیل بریف کریں گے کچھ دیر تک، تم بیٹھو یہیں پہ، میں تمہیں بلوا لوں گی۔

۔

۔

آؤ، لڑکی کے ساتھ جو مرد تھا وہ عثمان کو بلانے آیا تھا۔

اس کے ساتھ کمرے سے نکلتے ہوئے عثمان نے اسے مخاطب کیا۔

میرا نام عثمان ہے اور آپ…؟

مرد نے چلتے ہوئے بس ایک گہری نظر اس پہ ڈالی۔

اچھا۔ سوری ، اگر آپ نہیں بتانا چاہتے۔

عثمان بڑبڑایا۔

صفدر، میرا نام صفدر ہے۔ وہ بولا اور آگے بڑھ کر ہال کا باہری دروازہ کھول کر عثمان کو اندر داخل ہونے کا اشارہ کیا۔

۔

۔

اول تو ساتھ دینے کا شکریہ، تم پبلک سے ہو اور ہمارا کام تمہاری حفاظت کرنا ہے نہ کہ تمہیں خطرے میں گھسیٹنا لیکن مجبوری ایسی بن گئی۔

جنرل راحیل نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر عثمان کا استقبال کیا تھا۔

ذبح کرنے سے قبل مرغے کو عزت دی جا رہی تھی۔

ہمارے ایکسپرٹ ڈرائیو کا پیچھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں ایک چپ لگائی گئی ہے۔ جہاں پہ یہ ڈیوائس آن کی جائے گی۔ ہمیں اس کی لوکیشن معلوم ہو جائے گی۔ ڈرائیو ان لاک ہونے میں تین دن کا وقت لے گی یعنی لوکیشن کا پتا چلنے کے بعد ہمارے پاس بہتر(72) گھنٹوں کا وقت ہو گا۔ اسے واپس لانے کے لیے۔

ڈرائیو ہمارے ہاتھ سے نکلے اڑتالیس گھنٹے (48) ہونے کو آئے ہیں۔ اب کسی بھی لمحہ اس کی لوکیشن پتا چل سکتی ہے۔

مجھے کیا کرنا ہے سر…؟ عثمان کے سوال پہ جنرل راحیل دوبارہ بولے۔

تم اپنے ساتھیوں کے پاس جاؤ گے۔ اگر کوئی سامان چاہیے تو وہ لے لینا، رات وہاں ان کے ساتھ گزارو گے۔ صبح کوئی بہانہ کر کے باہر نکلو گے۔ صفدر تمہیں یہاں لے آئے گا۔ اب تمہیں خاموشی سے وہاں پہنچایا جائے گا اس لیے کوئی خطرہ نہیں لیکن احتیاطاً صفدر رات بھر باہر رکے گا۔ صبح جب تم یہاں آؤ گے باقی باتیں پھر ڈسکس کریں گے۔

جنرل راحیل اپنی جگہ سے اٹھے اور باہر نکل گئے۔

عثمان نے مایا کی جانب دیکھا تو وہ مسکرائی۔ اس مسکراہٹ میں ایک سوز چھپا تھا۔ جیسے گہرا درد ہو جسے چھپانا مجبوری ہو۔

عثمان ناسمجھی کے انداز میں جواباً مسکرایا۔ 

چلیں….؟ صفدر نے سوال کیا تو وہ چونکا۔

جی چلیں۔

وہ صفدر کے پیچھے چلتا ہال سے باہر نکل رہا تھا۔ گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو مایا اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی اور چہرے پہ ہلکی سی مسکان۔ عثمان کو اپنی جانب متوجہ ہوتے دیکھ کر اس نے رخ موڑ لیا۔ عثمان ہال سے باہر نکل آیا تھا۔

۔

۔

رات پرسکون گزری۔ عثمان بہانہ کر کے ساتھیوں کو الوداع کہہ کر رہائشی عمارت سے نکل آیا تھا۔

اب وہ پیدل چلتا جا رہا تھا۔ کچھ آگے جا کر یک بیک ایک گاڑی نے اس کے سامنے آ کر بریکس لگائے۔

آؤ بیٹھو۔ 

یہ مایا کی آواز تھی۔

آپ یہاں۔ اتنی صبح، مجھے لگا صفدر آئے گا۔ عثمان گاڑی میں بیٹھتے ہوئے خوش گوار حیرانی اپنی آواز میں سموئے ہوئے سوال کر رہا تھا۔

صفدر سے چارج میں نے لے لیا۔ وہ رات بھر باہر کھڑا جاگتا رہا تھا۔ اسے کچھ دیر آرام کرنے بھیجا ہے۔

مایا بولتے ہوئے مہارت سے گاڑی کو رش سے نکالتے ہوئے دوڑائے چلی جا رہی تھی۔

عثمان کن اکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ مایا کے حسیات محسوس کر رہے تھے۔ یک بیک اس نے رخ عثمان کی جانب کیا تو وہ کھسیانا سا ہو گیا۔

مایا دھیمے سے مسکرا دی۔ ایک اداس درد بھری خوبصورت مسکان۔ جو تھکی تھکی سی تھی۔

۔

۔

چلو آؤ۔

مایا عثمان کو لیے اندر کی جانب بڑھی۔

آؤ،

وہ ہال میں داخل ہوئے تو جنرل راحیل ایک میز پہ جھکے کوئی نقشہ دیکھ رہے تھے۔ مایا نے سیلوٹ کیا۔

سر

جنرل سیلوٹ کا جواب دیتے ہوئے عثمان کی جانب متوجہ ہو کر مشفقانہ انداز میں مسکرائے۔

ڈرائیو کی لوکیشن پتا چل گئی ہے۔ اب اگلے 71 گھنٹے ہم اسے ٹریک کر سکیں گے۔ اس کے بعد ہم اس کا سراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے۔

یہاں آؤ۔ جنرل نے انہیں قریب بلایا۔ اسی لمحے صفدر بھی اندر داخل ہوا۔ شاید اسے ایمرجینسی بلوایا گیا تھا۔

ٹیم کو بلاؤ۔ جنرل راحیل اپنے ساتھ کھڑے فوجی وردی میں ملبوس آفیسر سے مخاطب ہوئے۔

۔

۔

ٹیم کمرے میں آ چکی تھی۔

صفدر

جنید

ثاقب

حمید

فیاض

اور تم مایا، تم لیڈ کرو گی۔

جنرل راحیل سبھی کا تعارف کروا رہے تھے۔ تم لوگوں کے ساتھ یہ جائے گا۔

عثمان ۔ 

جنرل راحیل نے عثمان کی پیٹھ تھپکی۔

پلان یہ ہے کہ، عثمان کنگ کا ہمشکل ہے۔ اسے مکمل کنگ کے انداز میں تیار کیا جائے گا۔ تمہاری ٹیم لوکیشن پہ پہنچے گی۔ ہمارے پاس صرف شہر کی لوکیشن ہے۔ وہاں سے آگے عثمان کام آئے۔

تم لوگ اس کے آس پاس رہ کر اس پہ نظر رکھو گے۔ اسے شہر میں کھلا گھومنا ہے۔ فرانسیسی ٹیم جب اسے دیکھے گی تو یہی سمجھے گی کہ جس کنگ کو وہ اپنے تئیں مردہ سمجھ رہے ہیں وہ اتنی جلدی ٹھیک ہو کر ان کا پیچھا کرتے یہاں تک چلا آیا ہے۔

عثمان اپنے انداز میں کنگ کا سا اطمینان رکھے گا۔ وہ لوگ یہی سمجھیں گے کہ کنگ یعنی کہ عثمان ڈرائیو کی لوکیشن سے واقف ہو گیا ہے۔ وہ بوکھلاہٹ میں جو حرکات کریں گے۔ وہی حرکات تمہیں ان کے قریب لے جائیں گی۔

جنرل راحیل سانس لینے کو رکے۔ میز پہ رکھے پانی کے گلاس کو اٹھا کر چند گھونٹ پانی سے حلق تر کیا پھر گلاس واپس میز پہ رکھتے ہوئے دوبارہ گویا ہوئے۔

عثمان ہمارے لیے ترپ کے ایک ایسے پتے کا کام کرے گا جسے استعمال کر کے ہم بلی کو تھیلے سے باہر نکالنے والے ہیں۔

جنرل راحیل مسکرائے۔

مایا، تم کنگ کے انداز و اطوار سے بخوبی واقف ہو اور صفدر تم بھی۔ تم دونوں عثمان کو کنگ بنا دو۔ مکمل طور پہ، چال ڈھال سکھاؤ، تمہارے پاس سات گھنٹے کا وقت ہے۔ اس کے بعد تمہیں جانا ہو گا۔

مگر سر ہمیں جانا کہاں ہے….؟ عثمان جو اب تک حیرانی کے عالم میں غوطہ زن منہ کھولے جنرل راحیل کی بریفنگ سن رہا تھا۔ اب سوال کر رہا تھا۔

جنرل راحیل مسکرائے۔

مصر، قاہرہ۔ فرانسیسی ٹیم ڈرائیو کو ایکسپرٹس کے پاس وہاں لے کر گئی ہے۔ اب ان کی مجبوری ہے تین دن وہاں رکنا۔ اس لیے تم لوگ مصر یعنی قاہرہ میں ان سے ٹکراؤ گے اور ڈرائیو واپس لاؤ گے۔

جنرل راحیل اپنی بات مکمل کر کے کمرے سے باہر نکل گئے۔

آؤ تم میرے ساتھ آؤ۔

مایا نے حیران کھڑے عثمان کو مخاطب کیا۔

۔

۔

عثمان کی شیو بنانے سے لے کر کپڑے سیلکٹ کرنے تک کا کام مایا نے کیا تھا۔

اب صفدر اسے نشانہ لگانے کا طریقہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔

دیکھو، صفدر میاں۔ زندگی میں کبھی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں پڑی اور نہ مستقبل میں پڑنے والی ہے۔ بنا تو مجھے چارہ ہی رہے ہیں۔ خود دھیان رکھیے گا۔ مجھے کیا ضرورت پڑی ہے اسے چلانا سیکھنے کی۔

عثمان ہاتھ میں پستول پکڑے صفدر سے مخاطب تھا۔ کچھ دور بیٹھی مایا زیر لب مسکرا رہی تھی۔ صفدر نے اس کی جانب دیکھا تو اسے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کرتے ہوئے مایا اپنی جگہ سے اٹھ کر عثمان کے قریب آئی۔

ہم تمہیں سبھی ہتھیار چلانا نہیں سکھا رہے بس ایک پستول، جو تمہارے پاس رہے گا۔ اسے رکھنے کا طریقہ بھی بتائیں گے۔ وجہ بیک اپ پلان ہے۔ اگر خدانخواستہ ہم موقع پہ نہیں پہنچ پائیں یا کوئی مسلئہ ہو تو تم اپنی حفاظت کر سکو۔ ہم تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے لیکن بیک اپ پلان کا ہونا ہمیشہ ضروری ہوتا ہے۔

مایا کا لہجہ دھیما تھا۔ اس نے دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر عثمان کے ہاتھ کو سہلایا اور سیدھا کیا۔

ایسے، وہاں دیکھو۔ ایک آنکھ بند کرو۔ اب چلاؤ۔

مایا کے سانسوں کی آواز عثمان اپنے کندھے پہ محسوس کر سکتا تھا۔ وہ اس کے قریب کھڑی اسے پستول چلانے کا طریقہ بتا رہی تھی۔

ایک فائر کرنے کے بعد اب وہ پیچھے ہو گئی۔ چلاؤ۔

اس مرتبہ اس کا انداز تحکمانہ تھا۔

عثمان نے یکے بعد دیگرے فائر کرتے ہوئے میگزین خالی کر دی۔ اب مزہ آنے لگا تھا۔

شاباش۔ بہت سے کافی بہتر ہے۔ دوبارہ کوشش کرو۔ مایا اسے میگزین پکڑاتے ہوئے بولی۔

اب وہ میگزین تبدیل کر رہا تھا۔

۔

۔

وہ سفر کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ عثمان آئینے کے سامنے کھڑا خود کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ کنگ کے کپڑے اس پہ مکمل فٹ بیٹھے تھے۔

اس میں اور کنگ میں صرف چہرے کی پختگی کا فرق تھا۔ جسے مایا نے کمال مہارت سے میک اپ کے زریعے بدلا تھا۔ عثمان اس وقت اپنی عمر سے دس سال بڑا معلوم ہو رہا تھا۔

پختہ مرد اور سیکرٹ ایجنٹ

وہ آئینے میں دیکھتے ہوئے بڑبڑایا اور مسکرایا۔

اپنا بڑھاپا شاندار ہونے والا ہے میاں، ایک جھلک آئینے میں دیکھو تو چالیس کے قریب پہنچ کر گریس فل ہونے والا ہوں۔

کہتے ہوئے وہ ہلکا سا ہنسا جیسے اپنے ہی جملے کا مزہ لیا ہو۔

مایا اندر داخل ہوئی اور ایک چمڑے کا بیگ میز پر رکھتے ہوئے باہر نکل گئی۔

عثمان نے محسوس کیا تھا جب سے مایا نے اس کا میک اپ کیا تھا وہ اس کے سامنے آنے سے کترا رہی تھی۔

کیا تم تیار ہو۔۔۔۔؟

صفدر نے کمرے میں داخل ہو کر سوال کیا۔ پھر چند لمحے ساکت ہو کر اس کی جانب دیکھا۔ عثمان جو اس دوران صفدر کے کافی قریب آ چکا تھا، نے جوابی سوال داغا۔

یہ مایا جی، کو کیا ہوا ہے…؟ صبح تو اچھے خاصے تھے۔ اب میری جانب دیکھ بھی نہیں رہے۔

صفدر مسکرایا۔

وہ کنگ سے محبت کرتی ہے۔ اس وقت تم کنگ لگ رہے ہو لیکن ہو نہیں، اس لیے وہ تمہارا سامنا نہیں کر رہی۔ جانتے ہو۔ کنگ کے آخری مشن پہ ہم دونوں اس کے ہم رقاب تھے۔ اس کے باوجود جب وہ مخالفین سے ٹکرایا تو اکیلا تھا۔ اس نے کئی لوگوں کو مار دیا تھا اور باقیوں کا بھی صفایا کر دیتا لیکن دور سے ہونے والے فائر اسے ساکت کر گئے۔

ہم ساتھ میں ڈرائیو والے مشن پہ کام کر رہے تھے۔ جب اس کا ٹکراؤ ہوا تو زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے بیک اپ کے لیے ٹرانسمیٹر کال کیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ہم جلد پہنچیں اور ڈرائیو کی سیکورٹی یقینی بنائیں لیکن جلد بازی کے باوجود اس تک پہنچنے سے قبل وہ اس دنیا سے جا چکا تھا۔

میں خود تمہیں دیکھ کر عجیب سا محسوس کر رہا ہوں۔ تمہارے پاس میرے دوست جیسا چہرہ ضرور ہے لیکن وہ وقت جو ہم نے ساتھ بیتایا تم اس سے ناواقف ہو۔

ہم کئی مشنوں پہ پیٹھ سے پیٹھ جوڑ کر لڑے تھے۔ وہ میرا ٹیم میٹ تھا۔ اکھٹے اکیدمی جوائن کی۔ اکھٹے کمیشن لیا۔ اکھٹے اس ایجنسی میں آئے۔

ہم نے کئی راتیں وزیرستان میں کھلے آسمان تلے گزاری ہیں۔ یہ سب بھولنا میرے لیے آسان نہیں اور مایا تو ویسے بھی محبت کرتی ہے۔ اس لیے وہ نظریں چرائے پھرتی ہے لیکن تم بے فکر رہو۔ شی از ٹو سٹرونگ(وہ بہت مضبوط ہے) خود کو سنبھال لیں گیں۔

صفدر پہلی مرتبہ اتنی تفصیل سے بولا تھا۔ عثمان نے دھیرے سے سر ہلایا۔

آجاؤ۔ ٹیم باہر تمہارا انتظار کر رہی ہے۔

صفدر کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بولا۔۔ عثمان نے ایک الوداعی نظر آئینہ پہ ڈالی اور چمڑے کا بیگ اٹھاتے ہوئے باہر نکل آیا۔

۔

۔

جنرل راحیل سے الوداع لے کر وہ ائیرپورٹ آئے۔ فلائٹ چارٹرڈ تھی۔ کوئی امیر فیملی مصر جا رہی تھی ان کے ساتھ جنرل راحیل نے ٹیم کو بھیجا تھا۔

۔

۔

کیا دیکھ رہے ہو۔….؟

عثمان کھڑکی سے باہر جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ماسوائے بادلوں کے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔

اہ، ک ، کچھ نہیں ۔ مایا کے مخاطب کرنے پہ وہ گڑبڑا گیا۔

مایا نے آگے ہو کر کھڑکی سے باہر دیکھا اور واپس اس کی جانب دیکھنے لگی۔

اس کے چہرے پہ ایک شرارت بھری مسکان مسلسل عثمان کو کھسیانے پہ مجبور کر رہی تھی۔

پہلی مرتبہ سفر کر رہے ہو….؟

جی

مایا کے سوال پہ عثمان نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

بہادر ہو.، ورنہ عموماً لوگ پہلے سفر میں ڈرتے ہیں۔

مایا کی بات پہ عثمان مسکرایا۔

ڈرنا کیسا….؟ دو ہی باتیں ہیں۔ زندگی یا موت۔ میرا ماننا ہے کہ جب تک زندہ ہوں دھمال جاری و ساری، جب مرنا ہو گا۔ چپکے سے مر جاؤں گا۔

و او ایمپریسو، مایا مسکرا کے بولی۔

عثمان بھی جواباً مسکرایا۔

۔

۔

قاہرہ پہنچنے کے بعد اب وہ ایک مقامی ہوٹیل میں عربیوں کا سا لباس پہنے بیٹھے لائحہ عمل پہ نظر ثانی کر رہے تھے۔

ٹریکنگ ڈیوائس کے مطابق ڈرائیو قاہرہ میں ہی ہے۔ کہاں…؟ یہ کہنا مشکل کیونکہ لوکیشن بس قاہرہ کا بتا رہی ہے۔

مایا ہونٹ سکیڑے بول رہی تھی۔

مجھے کیا کرنا ہے …..؟ جنرل کے مطابق مجھے شہر میں کھلا گھومنا تھا۔

عثمان بولا تو مایا نے سر اٹھا کے اسے دیکھا۔

وہی کریں گے جو طے کیا گیا تھا۔

۔

۔

ٹیم تیار ہو چکی تھی۔ عثمان کو مقامی لباس کی بجائے کنگ کا مخصوص لباس پہنایا گیا تھا۔

تمہاری جیکٹ اور جینز بلٹ پروف ہے۔ اس لیے عام لباس سے بھاری ہے۔ مایا عام لہجے میں بولتے ہوئے عثمان کے چہرے قریب سے چیک کر رہی تھی۔

تمہارے میک اپ میں کوئی خامی نہیں ہے۔ گن تمہارے پاس ہے۔ اگر ذرہ بھر خطرے کا اندازہ ہو۔ تم بلا ججھک فائر کر سکتے ہو۔ یہ ڈیوائس۔

مایا ایک ننھا بلیو ٹوتھ اس کے کان میں لگا رہی تھی۔ اس کا رنگ انسانی جسم کے جیسا تھا۔ قریب سے غور پہ دیکھنے پہ معلوم ہوتا تھا کہ کان میں کچھ لگایا گیا ہے۔ ورنہ وہ جلد کا حصہ ہی معلوم ہوتا۔

اس سے تم ہم سبھی سے کنیکٹ رہو گے۔ ہم سبھی لوگ تمہاری بات سن سکیں گے لیکن تمہاری ڈیوائس میں کچھ تبدیلی کی ہے۔ تم صرف میری آواز سنو گے۔ تم فیلڈ ایجنٹ نہیں ہو اس لیے زیادہ آوازوں پہ دھیان دینے سے بوکھلاہٹ میں کوئی غلطی سر زد ہونے کا امکان ہے۔ جس سے بچاؤ کے لیے یہ کیا گیا ہے۔

چلو۔ یہ مایا نے ٹیم کی جانب منہ کر کے کہا تھا۔ وہ یکے بعد دیگرے کمرے سے نکلتے چلے گئے۔

اب میں بھی جا رہی ہوں۔ میرے جانے کے پندرہ منٹ بعد تم دھیرے سے خراماں خراماں چہل قدمی کرتے ہوئے باہر آؤ گے۔ کیب پکڑو گے اور کسی اچھے ریستوران جانے کا کہو گے۔ انگلش میں۔ سمجھ رہے ہو نا. عثمان۔

مایا مسلسل ہدایات جاری کر رہی تھی۔

جی۔ جی۔

ہم تمہارے آس پاس ہی موجود رہیں گے۔ تم مسلسل میری آواز سن سکو گے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں پرسکون انداز میں یہ کرنا ہے۔ ہم تمہارے آس پاس نظر رکھیں گے۔ اگر ہمیں کوئی انجان تم پہ نظر رکھتا نظر ایا تو ہم اسے مارک کریں گے۔ ایک وئیر ہاؤس مقامی سفارت خانے سے ہمیں ملا ہے۔ اسے اغوا کر کے وہاں لے جائیں گے۔ کیونکہ ہمیں پوری امید ہے کہ وہ صرف تم پہ نظر رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ڈائریکٹ حملہ کرنے کی حماقت نہیں کریں گے۔ وہ یہاں غیر قانونی طور پہ ہیں۔ ہم جیسے لوگ جب کہیں اس طرح گھس بیٹھتے ہیں تو حتی الوسع ہنگامہ آرائی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی یہی احتیاط انہیں دام میں لائے گی۔

اب چلو۔ میں چلتی ہوں۔ تمہیں جو کہا امید ہے تم اسے سمجھ گئے ہو گے۔ یو آر سو بریلیںٹ۔

مایا کمرے سے باہر نکلنے لگی جب عثمان نے پکارا۔

مایا جی،

مایا نے استفہامیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔

اپنا خیال رکھیے گا مایا جی۔

مایا مسکرائی۔

یہ بات مجھے کہنی چاہیے تھی ویسے کیونکہ تمہارا پہلی بار ہے، ہمارا روز کا کام ہے۔

عثمان مسکرایا اور خاموشی سے سر ہلایا۔ وہ کہنا چاہتا تھا۔

کنگ کا بھی روز مرہ کا معمول تھا لیکن میں نہیں چاہتا کہ آپ کو کوئی نقصان پہنچے۔ وہ کہنا ضرور چاہتا تھا لیکن خاموش رہا۔

مایا کمرے سے نکل گئی تھی۔ اب عثمان کو اگلے چودہ(14) منٹ گھڑی پہ نظر جمائے رکھنا تھی۔

۔

۔

عثمان دھیمے قدموں بے پرواہ انداز میں چلتا ہوا سڑک کنارے پہنچا۔

ہاتھ اٹھایا تو چند لمحوں بعد ایک کیب(ٹیکسی) آ رکی۔

Take me to a place where fish is good

(مجھے ایسی جگہ لے چلو جہاں مچھلی اچھی ملتی ہو)

وہ کیب ڈرائیور سے مخاطب ہوا۔

یس سر۔

وہ دھیمی رفتار سے ٹیکسی چلاتا چند بازاروں سے گزر کر ایک مصری طرز کے ریستوران پہ لے آیا۔

تم اچھے جا رہے ہو۔ ویری گڈ بوائے۔ یہ مایا تھی جو کان میں لگے آلے پہ اس کی تعریف کر رہی تھی۔

مچھلی کھانے کے بعد عثمان پیدل ہی مٹر گشت کرنے لگا۔ وہ سچ میں سب کچھ بھولے بس انجوائے کرنا چاہتا تھا۔ زندگی دوبارہ شاید یہ موقع نہیں دے۔ وہ ایک ایسی فیملی سے تعلق رکھتا تھا جہاں پہ رہتے کبھی اس نے سیاحت بارے نہیں سوچا تھا۔ اس شوق کو آوارہ گردی میں گنا جاتا تھا۔ اس کے لیے یہ موقع گولڈ آفر کے برابر تھا۔ مفت میں قدیم مصر گھومنا، جو ویسے شاید کبھی ممکن نہیں ہو پاتا۔

ہم ایکشن کر رہے ہیں۔ تمہارے پیچھے ایک لڑکی ہے۔ گزشتہ ایک گھنٹے سے وہ تم پہ نِظر رکھے ہوئے ہے۔ تم آرام سے کسی جگہ بیٹھو۔ صفدر تمہیں لینے آ رہا ہے۔ فی الحال اس کے ساتھ چلے آؤ۔

مایا کی آواز پہ عثمان دھیمے قدموں چلتا ایک آئسکریم پارلر میں آ بیٹھا۔

۔

۔

آ جاؤ۔ صفدر کی آواز پہ عثمان آئسکریم کا کپ تھامے اٹھا اور چھوٹی سی فیاٹ کی جانب بڑھا۔

کیا ہوا ہے….؟

عثمان نے بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔

ایک لڑکی کو پکڑا ہے۔ وئیر ہاؤس لے گئے ہیں۔ اس لڑکی کے پیچھے ایک اور شخص تھا۔ اس پہ ثاقب نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جنید اسے بیک اپ دے گا۔

صفدر مہارت سے فیاٹ کو لوگوں کے رش میں سے نکالتے ہوئے دوڑائے جا رہا تھا۔

۔

۔

وئیر ہاؤس پہنچ کر گاڑی سے اتر کر صفدر کی راہنمائی میں عثمان اندر آیا۔

وہ خاموش ہے۔ جواب نہیں دے رہی۔ مسلسل اوٹ پٹانگ بول رہی ہے۔ مایا تھکے لہجے میں بولی۔

پھر اب کیا کرنا ہے…؟

ثاقب کی ریپورٹ کا انتظار۔

صفدر کے سوال پہ مایا نے جواب دیا۔

میں کوشش کروں…؟ عثمان یک بیک بولا۔ آئسکریم کا خالی کپ ایک جانب اچھال رہا تھا۔

ہم ابھی اس پہ تشدد نہیں کرنا چاہتے۔ مایا پرتفکر لہجے میں اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔

نہ نہ، تشدد کیسا…..؟ عورت دشمن ہو یا دوست میں ہمیشہ اس کی عزت ہی کرتا ہوں۔

عثمان اندر کی جانب بڑھا۔

۔

۔

who Are You & Tell me , why you are following me.Who sent you …..?

(کون ہو تم .. بتاؤ مجھے میرا پیچھا کیوں کر رہی تھی۔ کس نے بھیجا ہے تمہیں….؟)

عثمان کے سوال پہ اس لڑکی نے رخ موڑ لیا۔

اٹس اوکے۔ عثمان متلاشی نظروں سے دیواروں کی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔

کیا مجھے ایک دستانہ ملے گا….؟ پھر اس نے پلٹ کر مایا سے سوال کیا۔

ہوںمممم۔ استفہامیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے صفدر نے ایک دستانہ اس کی جانب بڑھایا۔

عثمان نے دستانہ پہنا اور دھیمے قدموں چلتا دیوار کی جانب بڑھا۔

یک بیک چھلانگ لگائی اور دیوار سے چمٹی ایک چھپکلی کو دبوچ لیا۔

ناؤ۔ یو ٹیل می

(اب تم مجھے بتاؤ گی)

عثمان کے چہرے پہ شرارت بھری مسکان تھی۔

وہ چھپکلی ہاتھ میں تھامے اس بندھی ہوئی لڑکی کی جانب بڑھا۔ جو کسمسانا شروع ہو گئی تھی۔

نو ، پلیز نو۔ کی گردان کرتے ہوئے وہ تقریباً رونے ہی والی تھی۔ آواز میں گھبراہٹ تھی۔

Now You Tell her, everything, .every….thing, if you stop or shutting your mouth. this……

(اب تم اسے ہر چیز بتاؤ گی، ہر. ۔۔۔ چیز اگر تم رکی یا بولنا بند کیا تو۔۔۔ یہ) کہتے ہوئے عثمان نے چھپکلی اس کی جانب بڑھائی تو اس نے فلک شگاف چیخ بلند کی۔

پوچھے مایا جی۔ عثمان لڑکی پہ نظر جمائے ہوئے بولا۔ مایا نے قریب آ کر سوال کرنے شروع کیے۔ لڑکی کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں مسلسل بولتی جا رہی تھی۔ اس کی نظریں عثمان کے ہاتھ میں پکڑی چھپکلی پہ جمی تھیں۔ صفدر دھیمے سے لب چھپائے مسکرا رہا تھا۔

۔

۔

شکریہ عثمان۔

وہ باہر کھڑا آس پاس کا نظارہ لینے میں مشغول تھا جب مایا کی آواز آئی۔ وہ پلٹا۔ مایا دھیرے قدموں چلتی اس کی جانب چلی آ رہی تھی۔

بتا دیا اس نے وہ سب کچھ جو آپ کو جاننا تھا مایا جی،…؟

وہ ہلکے سے سوال کر رہا تھا۔

ہاں بتا دیا۔ مایا اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔

ویسے آج تم بالکل کنگ لگ رہے تھے۔ وہ یہی کرتا تھا۔ عموماً کوئی ایسا حل نکالا کرتا تھا جو بظاہر آسان ہوتا لیکن ہمارے ذہن میں نہیں۔ کنگ ایک دم سے صورتحال پلٹ دینے کا ماہر تھا اور تم نے بھی آج وہی کیا۔

مایا دھیمے لہجے میں بول رہی تھی۔ یوں جیسے خلا میں کسی غیر مرئی نقطے پہ نظریں جمائے بیٹھی ہو۔

ایک بات پوچھوں مایا جی۔۔۔۔؟

چند لمحے خاموشی کے بعد عثمان یک بیک بولا۔

ہوںممم۔

چند لمحے خاموشی رہی پھر عثمان نے ایک گہری سانس لی۔

پھر کبھی۔

چلیں……؟ یہ صفدر کی آواز تھی۔ وہ مایا سے مخاطب تھا۔

ہاں چلو۔ کیا ثاقب کا پیغام آیا…..؟

مایا نے اٹھتے ہوئے سوال کیا۔

جی۔ لڑکی کی گئی معلومات درست ہیں۔ ثاقب ان کے ٹھکانے کے آس پاس موجود ہے۔ صفدر مایا کے ہم قدم چلتے ہوئے بولا۔ عثمان اپنی جگہ جامد کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔

تم بھی ساتھ آؤ۔ مایا داخلی دروازے کے قریب پہنچ کر پلٹتے ہوئے عثمان سے مخاطب ہو کر بولی۔

وہ ہلکے سے مسکرایا اور سر جھٹک کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔

۔

۔

وہ لوگ دو گاڑیوں پہ تھے۔

یہ فاسٹ اٹیک ہے۔ ہمیں ڈرائیو حاصل کرنی ہے اور فرانسیسی ٹیم کو قابو کرنا ہے۔ حتی الوسع کوشش رہے کوئی سویلین متاثر نہیں ہو۔ فی الحال مصر کی حکومت سے لڑائی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

ہمارے اٹیک کے پندرہ منٹ کے اندر مقامی فورس پہنچ جائے گی۔ اس سے قبل ہمیں کام مکمل کر کے نکلنا ہو گا۔ یاد رہے۔

مایا کی آواز سبھی لوگوں کے کانوں میں لگے ننھے آلے پہ گونج رہی تھی۔

تم عثمان، وہ پلٹ کر اپنے عقب میں براجمان عثمان سے مخاطب ہوئی۔

تم میرے ساتھ رہو گے۔

صفدر نے حیرانی سے مایا کی جانب دیکھا لیکن خاموش رہا۔

۔

۔

یک بیک ہونے والے اس حملے میں فرانسیسی بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے تھے۔ ٹیم مایا صرف بے ہوش کرنے اور متاثر کرنے کو ترجیح دے رہی تھی۔ ابھی تک صرف ایک موت ہوئی تھی۔

جس کلب نما جگہ پہ وہ ٹیم ٹھہری ہوئی تھی۔ وہ کسی مقامی گینگ کا تھا۔ زیادہ تر لوگ انہیں کے تھے۔ جو مقابلہ کر رہے تھے۔ وہ اس حملے کو کسی مخالف گروپ کا وار سمجھے تھے۔ مگر یہ تربیت یافتہ لڑاکے ایجنٹس تھے۔ ان کا مقابلہ گینگ کے لوگوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ مسلسل فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا۔

عثمان مایا کے ساتھ گاڑی میں ہی تھا۔ یک بیک مایا اس سے مخاطب ہوئی۔

تم یہیں رہنا۔ میں ابھی آتی ہوں۔ ڈرائیو کے حوالے سے شاید کوئی بات اس کے ذہن میں آئی تھی۔ اس لیے وہ چپکے سے گاڑی سے نکل گئی۔

عثمان اس کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے گاڑی سے باہر نکلا۔ زور سے دروازہ بند کیا اور انگڑائی لے کر آس پاس دیکھنے لگا۔

یہی وہ موقع تھا جب چار لوگ دوڑتے ہوئے اس کی جانب آئے۔ عثمان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن دیر ہو چکی تھی۔ آنے والے ٹھٹک کے رکے۔ اس سے قبل وہ فائر کرتے۔ عثمان کے اندر کا مارشل آرٹسٹ جاگا اور وہ ایک لانگ ڈائیو کرتے ہوئے ان پہ آ پڑا۔

ایک کلاشن پہ ہاتھ ڈالتے ہوئے اسے فضا میں اچھالا اور نالی کی جانب سے کیچ کرتے ہوئے اسے لٹھ کی صورت گھمانا شروع کیا۔

چند لمحے میں تین لوگوں کے پھٹے ہوئے سر اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ مارشل آرٹس سچ میں ایک آرٹ ہے۔ خوبصورت، خوفناک آرٹ۔

چوتھے شخص نے، جو کچھ فاصلے پہ کھڑا تھا۔ گن سیدھی کی۔

یہی وہ لمحہ تھا جب عثمان نے اپنی موت کو قریب محسوس کیا۔

فائر کی آواز نے فضا دہلائی تھی۔

۔

۔

مایا گاڑی سے نکل کر رینگنے کے انداز میں کچھ دور گئی تھی۔ جب اس نے گاڑی کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔

اففف ، یہ بے وقوف لڑکا۔

وہ دوڑتی ہوئی گاڑی کی جانب واپس آئی۔ سامنے نظر آتے منظر نے اسے منجمند کر دیا۔

عثمان یک بیک ان چار لوگوں پر آ پڑا تھا۔ اب سر پھٹول جاری تھی۔ تین لوگ زمین پہ پڑے تھے اور چوتھا۔،،

وہ یک بیک جیسے ہوش میں آئی تھی۔ پستول سیدھی کرتے ہوئے فائر کیا اور عثمان پہ نشانہ سادھنے والا اپنے خون میں نہایا الٹے منہ زمین پہ آ گرا۔ گولی اس کے ماتھے پہ فٹ بیٹھی تھی۔

تم ٹھیک ہو….؟ مایا پریشانی کے عالم میں عثمان سے مخاطب تھی۔

جی ٹھیک ہوں۔ وہ اپنے ماتھے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔ وہاں ہلکی نمی تھی۔

میں نے تمہیں کہا تھا۔ گاڑی میں رہنے کا … مایا تھکی آواز میں بولی۔

عثمان اپنے ہاتھ کی جانب دیکھ رہا تھا۔

کیا ہوا…..؟ کہتے ہوئے مایا آگے بڑھی اور اس کے ماتھے پہ ہاتھ پھیرا۔

دست بدست لڑائی میں اس کے بھی ہلکا سا زخم آیا تھا۔

دکھاؤ، مایا اب اس کا زخم دیکھ رہی تھی۔

بے وقوف لڑکا۔ وہ بڑبڑائی۔ عثمان دھیمے سے ہنسا۔

وہ اپنی گاڑی کے قریب آ گئے تھے۔

کتنی ظالم ہیں آپ مایا جی، گولی چلاتے ہوئے زرا بھر نہیں سوچتے۔

عثمان بولا۔

میدان جنگ میں دشمن پہ رحم کھانے والے نرم دل نہیں بے وقوف ہوتے ہیں۔ ویسے تم کون سا پھول برسا رہے تھے۔ ….؟ سمجھ نہیں آیا کہ یہ تمہاری شکل والے لوگ پیدائشی سر پھٹول کے ماہر ہوتے ہیں یا یہ سب سیکھنا پڑتا ہے….؟

مایا مسکراتے ہوئے بولی تھی۔ پھر یک بیک یوں چونکی جیسے کوئی یاد آیا ہو۔ ایک گہری اداسی نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

چلیے۔ ڈرائیو مل گئی ہے۔ صفدر تقریباً بھاگتا ہوا ان کی جانب آیا تھا۔

نکلو۔ مایا نے گھڑی دیکھتے ہوئے کان کو ہاتھ لگا کر ٹرانسمیٹر آن کیا۔ 

کسی بھی لمحے مقامی فورس آتی ہو گی۔

وہ گاڑیوں میں بیٹھنے لگے۔ اگلے ہی لمحے دھول اڑاتی گاڑیاں سفارت خانے کے وئیر ہاؤس کا رخ کر رہی تھیں۔

۔

۔

پاکستان واپسی کے سفر میں مایا الگ بیٹھی تھی۔ عثمان کی سیٹ کچھ آگے تھی۔ عام مسافر طیارہ سے واپسی ہو رہی تھی۔ عثمان کو چند مرتبہ محسوس ہوا جیسے مایا اسے دیکھ رہی ہے لیکن جب وہ گردن گھما کر پیچھے دیکھتا تو مایا کو رخ موڑے ہوئے پاتا۔

اس نے دھیرے سے اپنا موبائل نکال کر فرنٹ کیمرہ آن کرتے ہوئے اس کا رخ اس انداز میں عقب کی جانب کیا جیسے آئینے میں عقبی عکس نظر آتا ہے۔ مایا اسی کی جانب متوجہ تھی۔

اس کی آنکھوں میں ایک حسرت تھی۔ یاسیت تھی۔ محب کو کھو دینے کا درد تھا۔ نظروں سے تکلیف عیاں تھی مگر زبان خاموش تھی۔

آنکھوں کے کنارے ہلکے نم تھے۔ مایا ضبط کی انتہا پہ تھی۔ محب نہیں رہا یہ درد اپنی جگہ، محب کا ہمشکل اس کی یاد دلانے کو سامنے بیٹھا تھا۔

عثمان ہلکے سے مسکرایا۔ اس کی مسکان میں کچھ خاص تھا۔ یوں جیسے مایا کی یاسیت کو محسوس کر سکتا ہو۔ اس نے رخ موڑے بغیر چپکے سے کیمرہ بند کر کے موبائل جیب میں منتقل کر لیا۔

۔

۔

جنرل راحیل مایا کی زبانی بریفنگ سنتے ہوئے ڈرائیو کو دیکھ رہے تھے۔ عثمان کچھ فاصلے پہ پیچھے کھڑا انہی کی جانب دیکھ رہا تھا۔

مایا کی بات ختم ہوئی تو انہوں نے اشارے سے عثمان کو اپنے قریب بلایا۔

بہت شکریہ بچے، اب تم گھر جا سکتے ہو۔

یہ جملہ عثمان کے لیے تکلیف دہ تھا۔ جنرل راحیل بولتے جا رہے تھے۔

تم نے سویلین ہوتے ہوئے بھی ہمارے لیے اتنا سب کیا۔ اپنا ٹور پس پشت ڈالا، اس کے ہم تہہ دل سے تمہارے مشکور ہیں۔ ہمارا یونٹ ہمیشہ تمہیں یاد رکھے گا۔

سر۔ عثمان نے ان کی بات کاٹی تھی۔

جنرل راحیل استفہامیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھنے لگے۔

کیا ایسا ہو سکتا ہے .. کہ مجھے آپ کے درمیان جگہ مل جائے۔….؟ میں اب یہی کام کرنا چاہتا ہوں۔ میرا یقین کریں واپسی پہ میرے پاس کرنے کو کچھ خاص نہیں ہے۔ پلیز سر۔

جنرل راحیل مسکرائے۔

ہاں ہو تو سکتا ہے۔ اگر تم چاہو، ہم تمہیں تربیت دیں گے اور تم کنگ بن جاؤ گے۔

مطلب ….؟ عثمان نے نا سمجھی کے عالم میں سوال کیا۔

کنگ از جسٹ اے ٹائیٹل(کنگ محض ایک لقب ہے)

جنرل راحیل مسکرائے۔ عثمان کا اندر خوشی سے جھومنے لگا تھا۔

مایا بس خاموشی سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔

صفدر نے یوں سر ہلایا جیسے اسے اس بات کا پہلے سے اندازہ تھا، امید تھی۔

۔

۔

عثمان اپنے گھر والوں کو بتا رہا تھا کہ اسے لاہور میں لکھنے کی ایک جاب مل گئی ہے۔

وہ غصہ کر رہے تھے کہ اتنے دن اضافی کیوں لگا دیے۔ تم صرف تین دن کے لیے گئے تھے۔

جواباً ، عثمان انہیں “لکھنے والی جاب” کی وضاحت دے رہا تھا۔

۔

۔

عثمان اپنے کلب آیا ہوا تھا۔

اس کے سینئر اس پہ غصہ کر رہے تھے کہ وہ درمیان میں چھوڑ کر کہاں غائب ہوا..؟

وہ انہیں انوکھی کہانیاں سنا کر بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے ایک کمپنی میں لکھاری کی نوکری مل گئی ہے۔

۔

۔

عثمان اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد جنرل راحیل کے ہاتھوں ایک پستول وصول کر رہا تھا۔

یہ اس کو فیلڈ میں خوش آمدید کہنے کا طریقہ تھا۔

تم اور مایا اب ایک ٹیم ہو۔ اپنے پارٹنر کی حفاظت کا خیال رکھنا اپنی حفاظت سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔

جنرل راحیل دھیمے لہجے میں سمجھا رہے تھے۔

۔

۔

مایا بالکونی میں کھڑی تھی جب عثمان عقب سے چلتا ہوا آیا۔

مایا پہچان کر بھی نہیں پلٹی بس یونہی کھڑی رہی۔

مایا جی،

وہ قریب آ کر بولا۔

مایا نے نظریں اٹھائے بغیر ہلکا سا ہنکار بھرا۔ وہ کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔

کیا آپ خوش نہیں ہیں۔…؟

تمہارے لیے خوش ہوں عثمان۔ مایا دھیمے لہجے میں بولی۔ اس کی آواز میں نمی تھی۔

عثمان دھیرے سے مسکرایا۔

اس نے مایا کو کاندھے سے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی جانب کیا۔ مایا کی آنکھوں میں ہلکی نمی جمع ہو رہی تھی۔

عثمان نے اسے اپنی جانب کھینچا تو وہ اس کے سینے سے آ لگی۔

مایا اپنا محب کھو کر اس کے ہمشکل کو اپنے سامنے پا کر ضبط کی انتہا کو تھی اور عثمان کو شاید مایا سے محبت ہو رہی تھی لیکن یہ رشتہ بس احترام اور خاموشی کا تھا۔ وہ چاہ کر بھی پیش قدمی نہیں کر سکتے تھے۔

ان کا کام اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا۔

۔

۔

دبئی

۔

مایا پوری سپیڈ سے گاڑی دوڑائے جا رہی تھی۔ کھلی چھت والی ٹو سیٹر کو ڈرائیو کرتی مایا کے بال ہوا میں اڑ رہے تھے۔

کنگ اس کے ساتھ بیٹھا گن لوڈ کر رہا تھا۔

تھوڑا دائیں۔ وہ چلانے کے انداز میں بولا۔

مایا نے سر ہلایا۔ وہ دونوں ایک رینج روور کا پیچھا کر رہے تھے۔

مایا نے ٹو سیٹر گھماتے ہوئے دائیں جانب سے نکالی۔

کنگ نے دروازہ کھولتے ہوئے پاؤں ڈیش بورڈ کے نیچے راڈ میں پھنساتے ہوئے سڑک کی جانب جھک کر فائر کیا تھا۔

رینج کا ٹائر فلیٹ ہوا، اور تیز رفتاری کے باعث قابو کھو کر وہ الٹ بازیاں کھاتے ہوئے کافی دور لڑھکتی چلی گئی۔

مایا نے اپنی ٹو سیٹر روک دی۔ عثمان (کنگ) جمپ کرتے ہوئے گاڑی سے نکلا اور الٹی پڑی رینج کی جانب بڑھا۔

سڑک خالی تھی۔ ہوا تیز تھی۔ ریت بگولوں کی صورت اڑتی پھر رہی تھی۔

۔

۔

اٹلی

۔

جلدی کرو۔

مایا بھاگتے ہوئے بول رہی تھی۔ کنگ اس کے عقب میں اپنے پیچھے فائر کرتے ہوئے بھاگ رہا تھا۔

ایک موڑ مڑنے پر سامنے آٹھ لوگ گھات لگائے نظر آئے۔ شاید انہیں اندازہ تھا کہ دوڑتے ہوئے یہ پارٹنرز اسی جانب آئیں گے۔

مایا جامد ہوئی۔ کنگ دوڑتا ہوا اس کے پیچھے گلی سے نکلا۔ ٹھٹکا، اور ایک لانگ ڈائیو لگاتے ہوئے ان پہ جا پڑا۔ مایا نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا۔

کسی کے سینے میں لات، کسی کی کنپٹی پہ گھونسہ، کسی کو گھما کر کمر پہ لادتے ہوئے زمین پر پٹخ کر ماتھے میں ٹھوکر۔

چند پل میں وہ آٹھ لوگ گھائل ہو کر زمین پہ پڑے تھے۔

عثمان(کنگ) نے مایا کا ہاتھ پکڑا اور دوڑتا چلا گیا۔

۔

۔

فرانس

۔

ایفل ٹاور کے قریب کھڑے ہو کر آئسکریم کھاتے ہوئے کنگ دھیمے لہجے میں مایا سے مخاطب تھا۔

اپنا کور یاد رکھنا۔ تم میری بیوی ہو، ہم نیا شادی شدہ جوڑا ہیں جو ہنی مون پہ پیرس آیا ہے۔ اور یہ گن،

کنگ مایا کو بظاہر اپنے سینے سے لگاتے ہوئے در حقیقت پستول اس کے سوٹ میں منتقل کر رہا تھا۔

یہ گن، اپنے پاس رکھو، تمہیں اس کی ضرورت پڑے گی۔ اب تمہیں واپس ہوٹیل جانا ہے اور مجھے کسی سے ملاقات” کرنی ہے۔

وہ لفظ ملاقات پہ زور دے کر بولا تھا۔ مایا بخوبی سمجھ سکتی تھی کسی کی شامت آنے والی ہے۔

وہ دور جاتے کنگ کو نظروں میں بسائے ہوئے تھی۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہوا تو دھیمے سروں گنگناتے ہوئے واپس ہوٹیل کی جانب پلٹ گئی۔

۔

۔

ہم امید ہیں

اچھے دنوں کے آنے کی

دلوں کو لبھانے کی

ہم امید ہیں

امید ہیں

برائی کے چلے جانے کی

اچھائی کے چھا جانے کی

ہم امید ہیں

امید ہیں

کھل کر مسکرانے کی

بری طاقت پہ غلبہ پانے کی

ہم امید ہیں

امید ہیں

ہم امید ہیں

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

تمام شد

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

السلام علیکم

احباب کے شکوے اور سوالات موصول ہوئے،

میں سمجھ سکتا ہوں، آپ لوگ کرداروں کے حوالے سے کچھ گڈ مڈی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسی حوالہ سے عرض کرنا چاہوں گا۔

میں نے جو کنگ سیریز(جس کے دو ناولٹ۔، انسانی اسمگلرز اور منشیات فروشوں کا انجام ہیں) لکھی تھی۔ کنگ اصل کردار اسی ناولٹ کا ہے، جو مختلف چہروں اور ناموں سے مشن سرانجام دیتا ہے۔ سیکرٹ سروس کا چیف ہے یعنی ہر ناول میں ہیرو وہی ہو گا، ولن اور مشن تبدیل ہو گا۔

اس کے علاوہ جتنی کہانیوں میں ، پاشا۔ مایا اور کنگ لکھتا ہوں وہ محض خانہ پوری ہے۔ میری سبھی کہانیاں فلم کی صورت لکھی جاتی ہیں یعنی اگر کبھی موقع ملا تو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ کرداروں کے نام تخیلق کر کے پردے کی زینت بناؤں گا۔ (یعنی فرضی ناموں کی جگہ استعمال کرتا)

امید ہو یا کوئی اور ناولٹ، اس میں استعمال ہونے والا، کنگ ، پاشا۔ محض اس کہانی کی حد تک ہوتا ہے۔ کہانی ختم وہ کردار ختم۔

اگلی کہانی ۔ اگلا کردار ۔ نام چاہے وہی لیکن کہانی الگ ہوتی ہے

قصہ مختصر

سیریز والا کنگ اصلی کردار ہے باقی سب خانہ پوری ہے۔

بس یہی درویش کی صدا ہے۔

۔

۔

امید” مکمل ہوا۔ یہ میری جانب سے احباب کے لیے عید کا تحفہ ہے۔ اسے قبولتے ہوئے مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا مت بھولیے گا۔

عید نام ہے خوشیاں منانے کا، جی بھر کے منائیے۔ الله پاک آپ کو اپنی حفظ و اماں میں رکھتے ہوئے عید کی حقیقی خوشیاں نصیب کرے۔ آمین ثم آمین

لیکن

خوشیاں مناتے وقت آس پاس، نظر ضرور رکھیں۔ اگر کسی ایک گھر میں آپ کی وجہ سے عید کی خوشیاں داخل ہوئیں(یعنی کسی بے کس ، مجبور کی مدد کیجیے) تو جانیے

آپ نے عید کی حقیقی خوشی حاصل کرتے ہوئے اپنے رب کو پا لیا۔

خوشیاں اور سلامتی مقدر

شاد و آباد رہیے

۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button