احمد فراز کا شمار اردو شاعری کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ 12 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ مگر ادبی دنیا میں احمد فراز کے نام سے مشہور ہوئے۔ فراز کا تعلق ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تھا اور ان کے والد سید محمد شاہ برق بھی ایک معروف شاعر تھے۔ فراز نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔
اردو ادب پر مزید آرٹیکل پرھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
AHMAD FARAZ
ادبی سفر
احمد فراز نے اپنی شاعری کا آغاز نوجوانی میں ہی کیا۔ ان کی شاعری میں عشق، رومانوی جذبات، اور سماجی مسائل کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ آپ کی پہلی کتاب “تنہا تنہا” 1958 میں شائع ہوئی جس نے انہیں ادب کی دنیا میں ایک نمایاں مقام عطا کیا۔ ان کے مشہور شعری مجموعے “درد آشوب”، “شب خون”، “غزل بہانہ کروں” اور “نابینا شہر میں آئینہ” وغیرہ ہیں۔
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنی ہی سائے سے ہراساں جاناں
AHMAD FARAZ
شاعری کا انداز
فراز کی شاعری میں زبان کی سادگی، خیالات کی گہرائی، اور جذبات کی شدت پائی جاتی ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں عاشقانہ جذبات کے علاوہ، معاشرتی انصاف، آزادی، اور انسانیت کے مسائل پر بھی بات کی گئی ہے۔ ان کی شاعری کا ایک اہم پہلو ان کی مزاحمتی فکر ہے جو ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
AHMAD FARAZ
اعزازات اور ایوارڈز
احمد فراز کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں “ہلالِ امتیاز“، “ستارۂ امتیاز” اور “نشانِ امتیاز” شامل ہیں۔ انہیں پاکستان کا “مصورِ غم” بھی کہا جاتا ہے۔
وفات
احمد فراز 25 اگست 2008 کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ فراز کی شاعری آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ اور ان کی غزلیں اور نظمیں ادب کے طلبا اور شاعری کے شائقین کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔
ایسا نہ ہو کبھی پلٹ کر نہ آسکوں
ہر بار دور جاکر صدائیں مجھے نہ دو
AHMAD FARAZ
احمد فراز کا نام اردو شاعری کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ ان کی شاعری کا اثر اور ان کا پیغام آج بھی لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔ وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔