جمعیت علما اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اس حکومت میں اتنا دم خم نہیں کہ ہماری شکایت کا ازالہ کرے۔ نئے انتخابات کروائے جائيں، اسٹیبلشمنٹ انتخابی عمل سے دور رہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مجلس شوریٰ نے جے یو آئی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے روابط کا جائزہ لیا۔ شوریٰ نے سیاسی جماعتوں سے رابطے کو سیاسی عمل قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ شوریٰ کا واضح مؤقف ہے کہ حکومت میں اتنا دم خم نہیں کہ ہماری شکایات کا ازالہ کر سکے۔ شفاف انتخابات کی ضمانت کے بغیر منانے اور راضی کرنے کے الفاظ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ معاملہ بڑا سنجیدہ ہے، یہ مسئلہ کسی ایک سیاسی جماعت کو منانے کا نہیں ایک مستقل مسئلہ ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ 13 اور 14 فروری کو مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا تھا۔ اس اجلاس میں 8 فروری کے الیکشن کے نتائج کو مسترد کردیا گیا تھا۔ انتخابی نتائج کسی قیمت پر ہمیں قبول نہیں۔ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے۔ غیر جانبدارانہ انتخابات منعقد کیے جائیں جس سے اسٹیبلشمنٹ دور رہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف ہمارا مؤقف اور تحفظات بہت سنجیدہ ہیں۔ مجلس شوریٰ نے پی ٹی آئی کے رابطوں کا جائزہ لیا ہے۔ اگر پی ٹی آئی مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو خوش آمدید کہتے ہیں۔ پی ٹی آئی میں ابھی تک یکسوئی کا فقدان ہے۔ پی ٹی آئی نے ابھی تک باضابطہ مذاکراتی ٹیم کا اعلان نہیں کیا۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ نے بیان دیا کہ جمعیت علما اسلام کے ساتھ اتحاد نہیں ہوسکتا۔ یہ دو قسم کی متصادم رائے ہیں جس پر ہم رائے قائم کرنے میں دقت محسوس کر رہے ہیں۔ اس وقت تک پی ٹی آئی نے کسی مذاکراتی ٹیم کا باضابطہ اعلان نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی کے سربراہ کی طرف سے وفود آتے ہیں۔ معاملات طے کرنے کی ہدایات لے کر آتے ہیں۔ یہ متصادم قسم کی آراء ہیں۔ ہم اس پر رائے قائم کرنے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں۔ ایک بہتر سیاسی ماحول طے کرنے میں ہمیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئین تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین کرتا ہے۔ عزم پاکستان کے نام سے آپریشن کا اعلان ہوا اس میں بھی یکسوئی نہیں۔ ملک کے دفاع کا مسئلہ ہو تو پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان نے 8 فروری کے الیکشن کو مشکوک قرار دیا۔ ہماری واضح رائے ہے امریکا پاکستان کے معاملات سے دور رہے۔