فلسطین کا خطہ مشرق وسطیٰ میں واقع ہے اور اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس علاقے کا نام “فلسطین” قدیم یونانیوں اور رومیوں نے رکھا تھا۔ اور یہ خطہ مختلف تہذیبوں اور قوموں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں ہم فلسطین کی تاریخ کے مختلف ادوار کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔
آپ یہاں پر کلک کر کے مزید اسلامی تاریخ پڑھ سکتے ہیں۔
قدیم دور
فلسطین کی قدیم تاریخ کا آغاز تقریباً 3000 قبل مسیح میں ہوتا ہے جب یہاں کنعانی قوم آباد تھی۔ کنعانیوں کے بعد اس خطے پر مختلف قوموں نے حکمرانی کی، جن میں عبرانی، مصری، اور حتی قومیں شامل تھیں۔ عبرانیوں نے یہاں اسرائیلی ریاست قائم کی، جو تقریباً 1000 قبل مسیح میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے دور میں اپنے عروج پر پہنچی۔
رومی دور
63 قبل مسیح میں رومی جنرل پومپئی نے فلسطین کو رومی سلطنت کا حصہ بنایا۔ اس دور میں یروشلم کو ایک اہم مذہبی اور تجارتی مرکز کے طور پر ترقی دی گئی۔ 70 عیسوی میں، رومیوں نے یہودی بغاوت کو کچل دیا اور یروشلم کو تباہ کر دیا۔
اسلامی دور
637 عیسوی میں خلیفہ عمر بن خطاب کی قیادت میں مسلم افواج نے فلسطین کو فتح کیا۔ اس کے بعد یہاں اموی، عباسی، فاطمی، اور عثمانی خلافتوں کا دور رہا۔ یہ دور فلسطین کی تاریخ میں خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
صلیبی جنگیں
1099 عیسوی میں، پہلی صلیبی جنگ کے دوران یورپی عیسائی فوجوں نے یروشلم کو فتح کیا اور یہاں ایک صلیبی ریاست قائم کی۔ یہ دور تقریباً 200 سال تک جاری رہا، لیکن بالآخر صلاح الدین ایوبی نے 1187 عیسوی میں یروشلم کو فتح کیا اور دوبارہ اسے اسلامی سلطنت میں شامل کیا۔
سلطنت عثمانیہ کا دور
1517 عیسوی میں، عثمانیہ سلطنت نے فلسطین کو فتح کیا اور یہ خطہ عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ عثمانی دور میں فلسطین نے نسبتاً امن و استحکام دیکھا اور یہ خطہ سلطنت کے دیگر حصوں کی طرح ترقی کرتا رہا۔
برطانوی دور
پہلی جنگ عظیم کے بعد،1917 میں برطانیہ نے فلسطین کو فتح کیا اور 1920 میں لیگ آف نیشنز نے فلسطین کا مینڈیٹ برطانیہ کو سونپ دیا۔ اس دور میں یہودی آبادکاری میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں یہودیوں اور عربوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔
جدید دور
1947 عیسوی میں، اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کی، جس کے تحت ایک یہودی اور ایک عرب ریاست قائم کی جانی تھی۔ لیکن یہ منصوبہ عملی طور پر کامیاب نہ ہو سکا اور 1948 عیسوی میں اسرائیل کی ریاست قائم ہو گئی۔ اس کے بعد مختلف عرب-اسرائیل جنگیں ہوئیں اور فلسطینی عوام کو بے گھر ہونا پڑا۔
فلسطینی مزاحمت اور امن کی کوششیں
1964 میں فلسطین لبریشن آرگنائیزیشن قائم ہوئی، جس نے فلسطینیوں کے حقوق اور آزادی کی جنگ لڑی۔ 1993 میں اوسلو معاہدہ ہوا جس کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو محدود خودمختاری ملی۔ لیکن آج بھی فلسطین-اسرائیل تنازعہ جاری ہے اور فلسطینی عوام اپنی آزادی اور خودمختاری کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔