پروین شاکر اردو ادب کی وہ معتبر اور مشہور شخصیت ہیں جنہوں نے اردو شاعری میں ایک نیا رنگ ڈالا۔ آپ 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئی۔ پروین نے اپنے منفرد انداز، حساسیت اور جذباتی گہرائی کے ساتھ اردو شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی۔
اپنے گھر کی طرح وہ لڑکی بھی نظر سیلاب ہو گئی شاید
تجھ کو دیکھوں تو روشنی دیکھوں شاید
PARVEEN SHAKIR
اردو ادب پر مزید آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
پروین شاکر نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی کے مختلف اسکولوں سے حاصل کی۔ انہوں نے انگریزی ادب اور لسانیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ، انہوں نے تدریسی پیشہ اپنایا اور کچھ عرصہ تک جامعہ کراچی میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔
شاعری کا آغاز
پروین شاکر کی شاعری کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ نوجوان تھیں۔ ان کی شاعری میں عورت کے جذبات، خواہشات اور مسائل کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔ پروین کی شاعری نے اردو ادب میں نسائی نقطۂ نظر کو مضبوط کیا اور اسے ایک خاص اہمیت دی۔
وہ تو خوشبو ہے، ہوائوں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھُول کا ہے، پھُول کدھر جائے گا
PARVEEN SHAKIR
نمایاں تصانیف
پروین شاکر کی شاعری کی پہلی کتاب “خوشبو” 1976 میں شائع ہوئی، جس نے فوراً ہی ادب کی دنیا میں ایک ہلچل مچا دی۔ اس کے بعد ان کی کئی اور کتابیں شائع ہوئیں، جیسے “صد برگ”، “خود کلامی”، “انکار”، اور “ماہ تمام”۔ ان کتابوں میں پروین نے محبت، درد، تنہائی، اور معاشرتی مسائل کو ایک دلکش انداز میں پیش کیا۔
ایک سے مُسافر ہیں ایک سا مقدّر ہے
میں زمین پر تنہا! اور وہ آسمانوں میں
PARVEEN SHAKIR
انداز شاعری
پروین شاکر کی شاعری کا انداز نہایت نرم اور دل کو چھو لینے والا ہے۔ ان کے اشعار میں نسوانی جمالیات کا عنصر غالب ہے، جو انہیں دیگر شاعروں سے الگ کرتا ہے۔ پروین کی شاعری میں ایک طرف محبت اور رومانوی جذبات کی گہرائی ملتی ہے، تو دوسری طرف ان کی شاعری میں زندگی کی تلخیوں اور ناانصافیوں کا بھی ذکر ہوتا ہے۔
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچّے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
PARVEEN SHAKIR
وفات
دسمبر 26، 1994 کو پروین شاکر ایک المناک حادثے میں جاں بحق ہو گئیں۔ لیکن ان کی شاعری اور ادب کی خدمات ہمیشہ زندہ رہیں گی۔