World

مرزا اسداللہ خان غالب

مرزا غالب کے شعر سننے میں اتنے بھلے ہوتے ہیں کہ ایک مرتبہ پڑھ یا سن لینے کے بعد عرصہ تک ان کا ذائقہ تر وتازہ رہتا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ شعر میں نے پہلی مرتبہ کب پڑھا؟ لیکن ایک بات جو یاد کہ، ادائے ناز، اور خود پرستی کا محبت بھرا عالم ہمیشہ میرے ذہن میں حوالہ بنا رکھتا ہے۔ شعر ہے کہ

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!؟

ایک اور جگہ بھی تعریف اپنے بام عروج پہ نظر آتی ہے۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور!

لیکن سچ کہا جائے تو یہ خود پسندی سے کہیں بڑھ کر ایک مان ہے۔ اپنے آپ پر، اور اپنے چاہنے والوں پہ۔

اردو ادب پر مزید آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تعارف

نام، “مرزا اسد اللہ بیگ خان”۔ تخلص “غالب”۔۔۔

غالب’ اردو زبان کے چند بڑے اور زندہ جاوید شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک تسلیم شدہ بات کہ، انیسویں صدی غالب کی صدی ہے’ کو چھوڑ کر آپ کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے اور ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی شہرت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ یوں کہا جا سکتا کہ دیوانے ہیں کہ بڑھتے جاتے ہیں۔

کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے۔

غالب آج بھی غالب ہے!۔

زندگی

غالب’ 27 دسمبر 1797ء میں کالا محل، آگرہ، ریاست بھرت پور میں پیدا ہوئے۔ اردو کے اس عظیم شاعر کا ایک عروج یہ تھا کہ بادشاہ تک شاگردوں میں شمار ہوتے تھے اور ایک نقطہء زوال ایسا تھا کہ پابہ زنجیر بازاروں سے گزارا جاتا تھا۔ اپنی زندگی میں ہر طرح کے نشیب و فراز، عروج و زوال دیکھنے کے بعد 15 فروری 1869ء کو 72 سال کی عمر میں غالب اس دُنیا فانی سے رخصت ہو گئے۔

غالب کی حویلی، گلی قاسم جان، پرانی دہلی، دہلی، آج بھی اس بیتے وقت کی یادگار کے طور پر انڈیا میں واقع ہے۔ جو دیکھنے والوں کو الگ دنیا میں لے جاتی ہے۔ جہاں غالب رہتا تھا۔

غالب کے آباؤ اجداد

مرزا غالب’ کے آباؤ اجداد میں مرزا کے دادا مرزا قُوقان بیگ سمرقند سے ہجرت کرکے مغل شہنشاہ احمد شاہ بہادر کے عہدِ حکومت میں غالباً 1748ء یا 1750ء میں مغلیہ سلطنت میں آ کر آباد ہوئے۔

اُن کا مغل شہنشاہ محمد شاہ کے دربار سے وابستہ ہونے کا ثبوت ملتا ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 1748ء سے قبل ہی ہندوستان میں وارد ہو چکے تھے۔ یہ خاندان حسب و نسب کے اعتبار سے ترک مغل تھا اور تورانی النسل ہونے کے ساتھ ساتھ سمرقند میں آباد ہونے سے انھیں سمرقندی ترک بھی سمجھا جاتا تھا۔

غالب کے دادا مرزا قُوقان بیگ ہندوستان آمد کے بعد چند دن لاہور میں مقیم رہے اور پھر دہلی میں شاہی ملازمت اِختیار کر لی۔ کچھ عرصے بعد یہاں سے مستعفی ہو کر مہاراجا جے پور کے پاس نوکری قبول کر لی اور آگرہ میں سکونت اِختیار کی۔

سال 1795ء یا 1796ء میں غالب کے والد مرزا عبد اللہ بیگ خان کا عقد آگرہ کے ایک فوجی افسر خواجہ غلام حسین خان کی بیٹی عزت النساء بیگم سے ہوا۔ آگرہ میں ہی اِن دونوں سے غالب پیدا ہوئے۔ آگرہ میں 1799ء میں غالب کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف علی بیگ خان پیدا ہوئے جو 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران 18 اکتوبر 1857ء کو قتل ہو گئے تھے۔

غالب کے غالوالدین کا انتقال

غالب کے والد مرزا عبد اللہ بیگ خان ریاست الور میں ملازم تھے اور وہاں 1802ء میں راج گڑھ کے مقام پر ایک جھڑپ میں قتل ہوئے جبکہ آپ کی والدہ کے متعلق آثار و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنوری 1840ء تک بقیدِ حیات تھیں۔

سن 1802ء میں والد کی وفات کے بعد آپ کے چچا مرزا نصر بیگ خان اُن کے سرپرست بنائے گئے جو مرہٹوں کی جانب سے آگرہ کے قلعہ دار تھے۔ 18 اکتوبر 1803ء کو جب آگرہ پر انگریزی افواج نے حملہ کیا تو مرزا نصر اللہ بیگ خان نے قلعہ آگرہ لارڈ لیک کے حوالے کر دیا جس پر انگریزی افواج آگرہ میں داخل ہوگئیں اور مرہٹوں کا اثر ختم ہو گیا۔

لارڈ لیک نے مرزا نصر اللہ بیگ خان کو 1700 روپئے مشاہرے کے ساتھ چار سو گھڑسواروں کا رِسالدار مقرر کر دیا۔ اپریل 1806ء میں مرزا نصر اللہ بیگ خان ہاتھی سے گر کر زخمی ہوئے اور انتقال کرگئے۔

خاندان کا وظیفہ

اُن کے پسماندگان میں غالب اور اُن کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف علی بیگ خان بھی شامل تھے۔ 4 مئی 1806ء کو نواب احمد بخش خان نواب ریاست فیروزپور جِھرکا نے انگریزوں سے سفارش کرکے پسماندگان کا وظیفہ دس ہزار روپئے مقرر کروا دیا جس میں آپ کی دادی‘ تین پھوپھیاں اور چھوٹا بھائی بھی شامل تھا۔ 7 جون 1806ء کو وظیفہ کی یہ رقم دس ہزار سے کم کرکے پانچ ہزار کردی گئی۔

شاعری کا آغاز

غالب نے 11 سال کی عمر میں شاعری شروع کی۔ ان کی پہلی زبان اردو تھی لیکن گھر میں فارسی اور ترکی بھی بولی جاتی تھی۔ اس لیے چھوٹی عمر میں ہی فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔

غالب کے خطوط

غالب کے خطوط آج اردو ادب میں ایک قیمتی اثاثہ مانے جاتے ہیں۔ اس زمانے میں انداز تخاطب الگ ہوتا تھا لیکن غالب نے اس چلتی ریت کو بدل کر خطوط کو انداز گفتار میں تبدیل کر دیا۔ آج بھی غالب کے خطوط کو پڑھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا درمیان کا عرصہ کہیں دور فضاؤں میں تحلیل ہو گیا ہو۔ جو سب کرتے تھے وہ غالب نہیں کرتے تھے گویا ان کے اپنے کہنے کے مطابق۔

وبائے عام میں مرنا غالب کو منظور نہیں!۔

حس مزاح

غالب کی حس مزاح بہت مشہور ہے۔ ان کے قصے عقیل روبی نے اپنی کتاب “شاعروں ادیبوں کے لطیفے” میں ذکر کیے ہیں۔ انہیں پڑھ کر آپ کی برجستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ چند قصے ذیل میں زکر کرنے جا رہا۔

غالب پہ کسی بنیے کا قرض ہو گیا۔ قرض بڑھا تو اس نے ڈگری کروا دی۔ شاہ کے محافظ غالب کو لے جانے آئے تو آپ نے ایک شعر لکھ کر ان کے حوالے کر دیا۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

بادشاہ نے جب شعر پڑھا تو مسکرا دیا اور قرض کا روپیہ سرکاری خزانے سے ادا کرنے کا حکم دیا۔

مزاح کی مثالیں

دوست کا لکھا خط

ایک دفعہ مرزا صاحب نے ایک دوست کو دسمبر 1858 کی آخری تاریخوں میں خط ارسال کیا۔ دوست نے جنوری 1859 کی پہلی یا دوسری تاریخ کو جواب لکھا تو مرزا غالب نے ان کو لکھ بھیجا۔

’’دیکھو صاحب! یہ باتیں ہم کو پسند نہیں۔ 1858کے خط کا جواب 1859میں بھیجتے ہو اور مزہ یہ کہ جب تم سے کہا جائے گا تو کہو گے کہ میں نے دوسرے ہی دن جواب لکھا تھا۔‘‘

قید سے آزادی

جب مرزا قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آکر رہے تھے۔ ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آکر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔ مرزا نے کہا۔

’’کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے! پہلے گورے کی قید میں تھا، اب کالے کی قید میں ہوں۔‘‘

روزہ نہ رکھنا

ایک مرتبہ ماہ رمضان میں مرزا غالبؔ نواب حسین مرزا کے ہاں گئے اور پان منگوا کر کھایا۔ ایک متقی پرہیزگار شخص جو پاس ہی بیٹھے تھے بڑے متعجب ہوئے اور پوچھا، ’’حضرت آپ روزہ نہیں رکھتے؟

مرزا غالب نے مسکرا کر کہا۔ شیطان غالب۔

بادشاہ سے مزاق

ایک مرتبہ جب ماہ رمضان گزر چکا تو بہادر شاہ بادشاہ نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ،

’’مرزا تم نے کتنے روزے رکھے؟‘‘ مرزا صاحب نے جواب دیا۔

’’پیرو مرشد ایک نہیں رکھا۔‘‘

غالب کی شاعری

یہاں غالب کے چند اشعار کا تذکرہ کیا جائے گا۔ پڑھیے اور جھوم جھوم جائیے۔

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے!

MIRZA GHALIB

ان کے دیکھنے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے!

MIRZA GHALIB

(ان اشعار کا تو مزہ، نشہ، دلکشی ہی الگ ہے۔ کیا ہی خوب و عمدہ انداز ہے۔)

غالب پر بنایا گیا ڈرامہ

غالب پر 1988 میں ایک ڈرامہ فلمایا گیا تھا۔ جس میں نصیر الدین شاہ نے آپ کا کردار ادا کیا تھا۔ اس میں یہ شعر نصیر الدین شاہ جب پڑھتے ہیں تو انسان کو سمجھ آتی ہے کہ اردو ادب کس قدر خوبصورت چیز ہے۔ جب یہ شعر غالب نے پڑھے ہوں گے تو محبوبہ کا کیا عالم رہا ہو گا۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا!

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا!

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا!

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں!

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

ہم نے مانا تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک!

MIRZA GHALIB

(افففف، اس شعر کی دل ربائی بھی ناقابلِ فراموش ہے۔)

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا!

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے!

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے!

عشق نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے!

یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا!

MIRZA GHALIB

(گویا غالب کو خود اپنی بادہ نوشی کا احساس رہتا تھا مگر کیا کرتے، خوب ہی کہا، چھوٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی۔)

میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی 

سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں 

ہاں وہ نہیں خداپرست جاؤ وہ بے وفا سہی 

جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں!

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

شرع و آئین پر مدار سہی

ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

نہ سنو گر برا کہے کوئی

نہ کہو گر برا کرے کوئی

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند

کس کی حاجت روا کرے کوئی

کیا کیا خضر نے سکندر سے

اب کسے رہنما کرے کوئی

جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ

کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی!

جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں

خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

ترے سرو قامت سے اک قد آدم

قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

تماشا کہ اے محو آئینہ داری

تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں!

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی!

MIRZA GHALIB

کہیے یہ تھے غالب یا پھر یہ ہیں غالب، مگر بات سے بات یا شعر سے شعر، گفتگو گر آپ کی ہو کہاں تھمتی ہے۔؟ خیر اتنے پہ اکتفاء کرتے ہیں۔ ورنہ چلتے چلیے تو کہاں رکیں کیا خبر!

یادش بخیر!

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button