حبیب جالب 24 مارچ، 1928 کو ہشیارپور، پنجاب (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش ایک عام گھرانے میں ہوئی۔ اس لیے آپ عام لوگوں کے مسائل سے آگاہ تھے۔ آزادی کے بعد آپ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
حبیب جالب ملک کو اپنی جاگیر سمجھنے والے حکمرانوں کے خلاف تھے۔ اس کی وجہ کئی بار جیل کاٹنی پڑی لیکن حوصلہ پست نہ ہو سکا۔ اپنی شاعری کے ذریعہ ملکی مسائل اجاگر کرتے رہے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔
اردو ادب پر مزید پوسٹس پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
حبیب جالب کی شاعری
آپ کی شاعری روائیتی مضامین کی بجائے حقیقی مسائل پر مبنی تھی۔ یہی آپ کی وجہ شہرت ہے۔ آپ کی چند مشہور تصانیف درج ذیل ہیں۔
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے
مطمئن ہے ضمیر تو اپنا
بات ساری ضمیر ہی کی ہے
اپنی تو داستاں ہے بس اتنی
غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے
اب نظر میں نہیں ہے ایک ہی پھول
فکر ہم کو کلی کلی کی ہے
پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو
جستجو آج بھی اسی کی ہے
جب مہ و مہر بجھ گئے جالبؔ
ہم نے اشکوں سے روشنی کی ہے
دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا
دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا
اپنا شریک درد بنائیں کسی کو کیا
ہر شخص اپنے اپنے غموں میں ہے مبتلا
زنداں میں اپنے ساتھ رلائیں کسی کو کیا
بچھڑے ہوئے وہ یار وہ چھوڑے ہوئے دیار
رہ رہ کے ہم کو یاد جو آئیں کسی کو کیا
رونے کو اپنے حال پہ تنہائی ہے بہت
اس انجمن میں خود پہ ہنسائیں کسی کو کیا
وہ بات چھیڑ جس میں جھلکتا ہو سب کا غم
یادیں کسی کی تجھ کو ستائیں کسی کو کیا
سوئے ہوئے ہیں لوگ تو ہوں گے سکون سے
ہم جاگنے کا روگ لگائیں کسی کو کیا
جالبؔ نہ آئے گا کوئی احوال پوچھنے
دیں شہر بے حساں میں صدائیں کسی کو کیا
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہوگی
پڑھ کے ناخوش ہیں مرا صاحب ثروت لکھنا
دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے
سرو قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہ کے مصاحب جالبؔ
رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا